Pak Afghan Haliya Tanazat Ki Asal Wajah
پاک- افغان حالیہ تنازعات کی اصل وجہ
پچھلے کچھ عرصے سے ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب افغان اور پاکستانی سیکورٹی فورسز کے درمیان وقتاًفوقتاً تصادم اور جھڑپیں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ ان جھڑپوں میں دونوں ممالک کے دسیوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اگست 2021ء کے وسط میں طالبان کے افغانستان میں برسر اقتدار آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں یہ جاننے کی ضرورت پیدا ہوتی ہے کہ اس کے اسباب کیا ہیں؟ اور کیا اس کے اسباب علاقائی ہیں یا خارجی ہیں؟
ان جھڑپوں کا محرک اور دونوں ممالک کے درمیان اس تناؤ میں اضافے کا بنیادی سبب امریکہ اور پاکستان کی حکومتوں کی جانب سے طالبان پر دباؤ ڈالنا اور انہیں اشتعال دلانا ہے۔ جہاں تک امریکہ کی جانب سے ایسا کرنے کا تعلق ہے تو امریکہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کو بین الاقوامی طور پر تسلیم نہ کیا جائے۔ امریکہ نے بین الاقوامی طور پر طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے بہت سی شرائط رکھیں ہیں، مثال کے طور پر مٹھی بھر سیکولر لوگوں اور امریکہ کے سابق ایجنٹوں کو اقتدار میں شریک کرنا، عورتوں کے حقوق اور ان کے بعض مصنوعی مطالبات کو پورا کرنا، اور ان کو جواز بنا کر تحریک طالبان پر حملے کرنا۔ بین الاقوامی طور پر تسلیم نہ کیے جانے کا مسٔلہ اب طالبان حکومت پر لٹکتی ہوئی تلوار بن چکا ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ کی جانب سے بیرون ملک موجود افغانستان کی رقوم کو منجمد کرنا اور نئی حکومت کو ان اموال سے استفادہ کرنے سے روکنا، بلکہ ان کے کچھ حصے کو غیر حکومتی طریقے سے خرچ کرنا یعنی طالبان حکومت کو کمزور کرنے کے لیے خرچ کرنا، جن میں سے ایک افغانستان میں مغرب سے جڑی سول سوسائٹی کے قیام کا مطالبہ اور اس کی کوششیں شامل ہیں۔ پھر امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ہندوستان پاکستان کی طرف سے بے فکر ہوکر چین پر توجہ مرکوز رکھے جس کے لیے پاکستان کو افغانستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی میں الجھانا ضروری ہے، تا کہ پاک-افغان سرحد پرامن نہ ہولیکن پاکستان- ہندوستان سرحد پرامن رہے اور ہندوستان پوری یکسوئی کے ساتھ چین کی طرف متوجہ رہے۔
ہم جانتے ہیں کہ امریکہ نے 2020ء میں قطر کے دار الحکومت دوحہ میں طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کیا، جس میں طالبان نے امارت اسلامی افغانستان کی جانب سے یہ عہد کیا کہ "امارات افغان سرزمین کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال ہونے نہیں دے گی، وہ افغانستان میں کسی بھی جماعت اور فرد کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ بننے نہیں دے گی، وہ ایسے لوگوں کی بھرتی، تربیت اور فنڈنگ کو روکے گی اوران کی میزبانی نہیں کرے گی" اور یہ کہ "امریکہ اور امارت اسلامیہ ایک دوسرے کے ساتھ مثبت تعلقات قائم کرنے کی کوشش کریں گے"۔ اس معاہدے کے باوجود افغان سرزمین بدستور امریکی حملوں کی زد میں ہے۔
پاکستان کی افغانستان کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ اس وجہ سے بھی ہوا کہ پاکستانی حکومت نے امریکی طیاروں کی افغانستان میں بمباری کے لیے سہولت کاری کی جس کے نتیجہ میں کابل میں بمباری کے ذریعے القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو قتل کیا گیا۔ امریکہ نےیکم اگست 2022 کو اپنے صدر جو بائیڈن کے ذریعے اعلان کیا، جیسا کہ امریکی انتظامیہ کے آفیشل صفحے پر آیا کہ "امریکہ نے افغان دار الحکومت کابل میں ایک فضائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہر مارے گئے"۔ اسی طرح رائٹرز نے رپورٹ کیا: "طالبان حکومت کےقائم مقام وزیر دفاع ملا محمد یعقوب نےاتوار کو کہا کہ پاکستان نے افغانستان پر حملوں کے لیے امریکی ڈرون کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی تھی، جس کی پاکستان کے وزیر خارجہ نےتردید کی۔ پاکستانی حکام نے اِس سے قبل اُس ڈرون حملے میں ملوث ہونے یا اس سے متعلق علم ہونے کی تردید کی تھی جس کے متعلق امریکہ نے کہا تھا کہ اس نے جولائی میں کابل میں حملہ اس نے کیا تھا جس میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری مارے گئے تھے۔ قائم مقام افغان وزیر دفاع ملا محمدیعقوب نے کابل میں ایک نیوز کانفرنس کو بتایا کہ یہ ڈرونز افغانستان میں پاکستان سے داخل ہوتے تھے"۔ (رائٹرز، 28 اگست 2022)۔
یہ سب کچھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ امریکہ بدستور اپنی انٹیلی جنس اور جاسوسوں کے ساتھ افغانستان میں سرگرم ہے، اور اس کے ایجنٹوں کا خاتمہ نہیں کیا گیا ہے۔ پاکستان بدستور امریکہ کے کنٹرول میں ہے جہاں سے امریکہ متحرک ہے اور اس کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے افغانستان میں اقدامات کر رہا ہے۔ اس طرح یہ اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی جھڑپیں دراصل امریکہ کی جانب سے اکسانے اور شہ دلانے پر ہورہی ہیں، جس کا مقصد پاکستان کو افغانستان کے ساتھ سرحدی تنازعات میں الجھا کر ہندوستان کو چین پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل بنانا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ طالبان، اور خاص طور پر تحریک طالبان میں حقانی نیٹ ورک کو، جن سے افغانستان میں امریکی اور نیٹوفورسز پر متعددحملوں کو منسوب کیا جاتاہے، دباؤ میں لایا جائے۔ اس طرح طالبان کو کچھ بین الاقوامی معاہدوں، یا تصورات، یا امریکہ کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا جائے۔
یہاں یہ بات واضح ہے کہ امریکہ اور بطور ایجنٹ کے اس کے ساتھ مل کر کام کرنے والے اور ان کے پیرو کار ہی اسلامی سرزمینوں میں فساد کی جڑ ہیں۔ امریکہ اور اس کے ایجنٹ کسی مؤمن کے حوالے سے رشتہ داری کا کوئی لحاظ رکھتے ہیں نہ کسی عہد کا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، ﴿هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ﴾ "یہی دشمن ہیں ان سے ہوشیار رہو"(المنافقون، 63:4)۔ اس لیے یہ حیران کن ہے کہ اس سب کے باوجود طالبان حکومت کے عہدہ دار قطر میں امریکی عہدہ داروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں حلانکہ امریکہ افغانستان اور تمام مسلمانوں کے گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے اور تاک میں بیٹھا ہوا ہے، یہ کبھی اپنے عہد کو پورا نہیں کرتا، اس نے افغانستان کے اموال کو منجمد کیا ہوا ہے جو کہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور افغانستان سرزمین اور فضاوں کی حرمت کو پامال کرتا ہے۔ کافر استعماری ممالک کا یہی حال ہے، کفر ایک ہی ملت ہے۔ یہ اپنے عہد وپیمان کی پابندی کبھی نہیں کرتے۔
مسلمانوں کا معاملہ اسی طرح ہی درست ہو سکتا ہے جیسے پہلے ہوا تھا: اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے حکمرانی، نبوت کے نقش قدم پر خلافت کا قیام، جو کفار کو دھتکار دے گی۔ خلافت، جس کا دستور اسلام ہے، یہ وہ دستور ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ کوئی انسانوں کا بنایا ہوا دستور نہیں ہے، جیسا کہ افغانستان میں ظاہر شاہ کا 1964ء کا دستور تھا جس کی حکومت 1973ء میں ختم ہوئی، اور اس کے دستور کو طالبان نے اختیار کیا جیسا کہ وزیر انصاف نے28 ستمبر 2021 کو اعلان کیا(الجزیرہ، اناتولیہ اوروائس آف امریکہ، 28 ستمبر 2021)، یا جیسا دیگر مسلم ممالک کے انسانوں کے بنائے دستور ہیں، یہ سب اللہ کے حکم کے خلاف ہیں، ﴿وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ﴾ "اور ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے فیصلے کیجئے، ان کی خواہشات کی پیروی مت کریں اور ان سے ہوشیار رہیں کہ کہیں اللہ کے نازل کردہ میں سے بعض کے بارے میں تمہیں فتنے میں نہ ڈالیں اور اگر یہ منہ موڑ لیں تو جان لیجئےکہ اللہ ان کو ان کے بعض گناہوں کی سزا دینا چاہتاہے"۔ (المائدہ، 5:49)۔ مسلمانوں کے علاقوں کو جن مصائب اور فتنوں کا سامنا ہے اور استعماری کفار کی مسلمانوں کی سرزمین پر جو لالچی نظریں لگی ہوئی ہیں، اس سب کی وجہ مسلمانوں کا اللہ کے نازل کردہ کے ذریعے حکمرانی نہ کرنا اور نبوت کے طرز پر خلافت کا موجود نہ ہونا ہے، یہ کوئی نامعلوم بات نہیں بلکہ ہر بصارت اور بصیرت والے عقلمند کو معلوم ہے۔
افغانستان اور پاکستان دونوں کو، جن کو امریکہ باہمی تنازعات میں الجھا رہا ہے، چاہیے کہ مسلمانوں کے درمیان لڑائی کے جرم کا ادراک کریں، حقیقی دشمنوں امریکہ اور ہندوستان کی چالوں کو سمجھیں جو ان تنازعات کو ہوا دے رہے ہیں اور اپنے خبیث مقاصد کے لیے ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دونوں کو چاہیے کہ اپنے برادرانہ اسلامی تعلقات کو مزید مستحکم کریں، کفر کے سرغنہ امریکہ اور دوسرے کافر استعماری ریاستوں سے رابطہ توڑ دیں جو ہماری سرزمین کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہیں۔ دونوں کو چاہیے مل کر ایک ریاست خلافت کا قیام کریں تاکہ اسلام اور مسلمان سربلند ہوں اور کفار اور کفر ذلیل ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، ﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾ "اس دن مؤمن اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے وہی جس کی چاہتا ہے مدد کرتاہے، وہی غالب اور حم کرنے والا ہے"۔ (الروم، 5-4)