Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ghazali Farooq
  4. Nayi Siasat Aur Nayi Riyasat

Nayi Siasat Aur Nayi Riyasat

نئی سیاست اور نئی ریاست

گزشتہ چند سالوں میں معاشی ابتری کی وجہ سے پاکستان کے مسلمانوں کی مشکلات و مصائب میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سیاسی افراتفری، عدم استحکام اور گورننس کی ناکامی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستانی ریاست اور اس کے ادارے عوام کو درپیش مسائل سے لاتعلق نظر آتے ہیں، مسائل کے حل میں ان کی عدم دلچسپی واضح ہے بلکہ ریاست تو گویا غائب ہے یا اس کا وجود ہی موجود نہیں، جس کے نتیجے میں عوام کی مشکلات شدید تر ہو چکی ہیں۔

آج پاکستان کا سیاسی طور پر مفلوج ہونا اور عدم استحکام اُس ناکام طرزِ سیاست کا براہ راست نتیجہ ہے، جو حکمران طبقہ کا خاصہ ہے۔ پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن، پی پی پی اور دیگر سیاسی جماعتیں اپنی طرزِ سیاست میں سیاست کے متعلق مغرب کے تصور سے متاثر ہیں، نتیجتاً ان کی سیاسی کوششوں کا تمام تر محور ہر قیمت پر اقتدار کا حصول اور حکومتی سیاستدانوں، جرنیلوں اور اعلیٰ عدلیہ کے مفادات کا تحفظ ہے۔

سویلین بالادستی، قانون کی بالادستی اور عوام کی حکمرانی جیسے نعروں کے نام پر کی جانے والی یہ سیاست، جرنیلوں، سیاست دانوں اور ججوں کے مفادات کو پورا کرنے کے گرد گھومتی ہے جو طاقت کے حصول اور ملکی وسائل میں زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرنے کے لیے آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ یہ سیاسی سودے بازی کرنے، مغربی مفادات اور بین الاقوامی اداروں کی خدمت کرنے اور ایسے قوانین منظور کرانے کی سیاست ہے، جس کے نتیجے میں جرنیلوں، سیاست دانوں اور ججوں کی مدتِ ملازمت یا اقتدار میں توسیع ہو یا ان کو ملنے والی مراعات میں اضافہ ہو، اور سیاسی جماعتوں کے وفاداروں اور ان کی مالی معاونت کرنے والوں کو نوازا جائے۔

پاکستان کے مسلمانوں کی بدحالی کو ختم کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی آپشن نہیں کہ موجودہ سیاست، جو طاقت و اقتدار کی ہوس کی بنیاد پر کھڑی ہے، کو مکمل طور پر مسترد کر دیا جائے اور اسلام پر مبنی نئی سیاست کو اپنایا جائے۔ پاکستان کو ایک نئی سیاست کی ضرورت ہے جس کا محور و مرکز عوام کے امور کی دیکھ بھال ہو۔ ایک ایسی سیاست جو اسلامی شریعت کے نفاذ پر مبنی ہو، جس میں حکمران قرآن اور سنت نبوی ﷺ سے اخذ کردہ احکامات کو نافذ کریں، اور امت اسلام کے نفاذ میں کوتاہی پر حکمران کا کڑا احتساب کرے۔

ایسی سیاست جو امت کے مفادات کو اسلامی شریعت کی روشنی میں دیکھے اور جو امت کو کافر استعمار کے مکر و فریب سے محفوظ رکھے۔ ایک ایسی سیاست جس کا محور امت کے معاشی وسائل کو یکجا کر کے تمام مسلمانوں پر خرچ کرنا ہو۔ ایک نئی سیاست جو مقبوضہ فلسطین اور کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے امت کی فوجی قوت کو یکجا کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرے۔ ایک ایسی سیاست جو پوری دنیا تک اسلام کے پیغام کو پہنچانے پر اپنی توجہ مرکوز کرے اور جو ایسے حکمران پیدا کرے جو امت کے محافظ ہوں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالأَمِيرُ رَاعٍ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ، فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ۔

"تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے بارے میں سوال ہوگا کہ جس پر وہ نگہبان تھا۔ حکمران نگہبان ہے، مرد اپنے گھر والوں پر نگہبان ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر نگہبان ہے۔ پس تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے بارے میں سوال ہوگا کہ جس پر وہ نگہبان تھا"۔ (بخاری)

پاکستان کو نئی سیاست کے ساتھ ساتھ ایک نئی ریاست کی ضرورت ہے۔ جمہوریت، جو کہ مغرب کا سیاسی نظام حکومت ہے اور پاکستان میں بھی نافذ ہے، موجودہ سیاست دانوں کو اپنے اور اپنے مغربی آقاؤں کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے قانون بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ جمہوریت میں اثر و رسوخ رکھنے والے کاروبار، ذاتی مفاد کے حصول کے لیے قانون سازی کے عمل اور سرکاری محکموں پر اثر انداز ہوتے ہیں، اور ایسے قوانین اور پالیسیاں بنواتے ہیں جن سے سرمایہ دار کو رعایتیں اور چھوٹ حاصل ہوتی ہے۔

وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں پر مشتمل تہہ دار فیڈرل ریاستی ڈھانچہ فیصلہ سازی اور پالیسی سازی کو مفلوج کر دیتا ہے۔ صوبائی اور مقامی حکومتیں مختلف سیاسی جماعتوں کے زیر انتظام ہوتی ہیں اور وہ ایک دوسرے کو اور وفاقی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ طاقت کی یہ تہہ دار تقسیم، حکومت کے تمام ڈھانچوں میں موجود حکمران طبقے کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ کوتاہی و غفلت کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈال کر اپنے آپ کو امت کے معاملات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سے بری الذمہ بنا لیں۔

پنجاب کے وسائل سندھ کے سیلاب زدہ مہاجرین کے لیے دستیاب نہیں، جبکہ وفاقی حکومت سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سیلاب زدہ مہاجرین کی مدد نہیں کر رہی کیونکہ حکمران مسلم لیگ (ن) ان سیلاب زدہ مہاجرین کو اپنے ووٹرز کے طور پر نہیں دیکھتی۔ ہر پانچ سال بعد انتخابات، اور حکومتوں اور قانون ساز اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے حق نے پاکستان میں مسلسل سیاسی عدم استحکام پیدا کر رکھا ہے، جو ریاست کو مفلوج کر رہا ہے۔

خارجہ امور میں پاکستانی ریاست مسلسل غیر ملکی طاقتوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر انحصار کرتی ہے، جو پاکستان کی اقتصادی اور خارجہ پالیسی کو غیر ملکی طاقتوں کے تابع بنانے کے لیے سخت معاشی اور سیاسی شرائط عائد کرتے ہیں۔ نئی ریاست، یعنی نبوت کے نقشِ قدم پر قائم دوسری خلافتِ راشدہ میں امت، تاحیات خلیفہ کا انتخاب کرتی ہے اور اسے اس شرط پر بیعت دیتی ہے، کہ وہ امت کی اطاعت کے بدلے میں اسلامی شریعت کو نافذ کرے گا۔

خلیفہ کو اس صورت میں ہٹایا جاتا ہے اگر وہ صریح کفریہ قوانین کا نفاذ شروع کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت میں سیاسی استحکام رہتا ہے اور خلیفہ کو امت کی بہتری کے لیے طویل مدتی پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ خلیفہ ہی صوبوں کے والی (گورنروں) اور شہروں کے عامل مقرر کرتا ہے۔ والی اور عامل خلیفہ کو رپورٹ کرتے ہیں جبکہ خلیفہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے امت کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔

خلافت ریاست کے تمام شہریوں کو ان کی نسل، رنگ یا سیاسی طاقت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسلامی شریعت کے مطابق حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔ خلیفہ قانون نہیں بنا سکتا، وہ محض اسلامی شریعت کا پابند ہوتا ہے اور اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ قرآن اور سنت نبوی ﷺ سے اخذ کردہ قوانین کو ہی نافذ کرے۔ یہ نئی ریاست، یعنی دوسری خلافتِ راشدہ، وحی کی بنیاد پر حکومت کرتی ہے، اور قرآن و سنت میں دیے گئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نازل کردہ قوانین اور پالیسیوں کو نافذ کرتی ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: وَاَنِ احۡكُمۡ بَيۡنَهُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعۡ اَهۡوَآءَهُمۡ وَاحۡذَرۡهُمۡ اَنۡ يَّفۡتِنُوۡكَ عَنۡۢ بَعۡضِ مَاۤ اَنۡزَلَ اللہُ اِلَيۡكَ‌ؕ۔

"اور (ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ) جو (حکم) اللہ نے نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق ان میں فیصلہ کرنا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا اور ان سے بچتے رہنا کہ کسی حکم سے جو اللہ نے آپ پر نازل فرمایا ہے یہ کہیں آپ کو بہکا نہ دیں" (المائدہ، 5:49)

خلافت اسلام کا سیاسی ڈھانچہ ہے۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ خلیفہ کو مقرر کریں، اس کی اطاعت کی بیعت کریں اور اسلامی شریعت کے نفاذ اور اسلام کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچانے کے لیے اس کی مدد کریں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ۔ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ، أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ۔

"بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا جبکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے بلکہ کثیر تعداد میں خلفاء ہوں گے۔ صحابہؓ نے پوچھا، آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا، تم اس کی اطاعت کرو جسے سب سے پہلے بیعت دی جائے اور انہیں اُن کا حق ادا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اُن سے اُن کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا جو اُس نے انہیں دی"۔ (بخاری)

اللہ کے رسول ﷺ نے انسانیت کے سامنے ایک نیا نظریہ پیش کیا، جس کی بنیاد ربّ العالمین کی جانب سے نازل کی گئی وحی تھی۔ آپ ﷺ نے ایک نئی سیاست، ایک نئی ریاست اور ایک نیا معاشرہ قائم کیا جو پوری دنیا کے لیے روشنی کا مینار بن کر چمکا۔ اس مشن میں انصار کے مبارک لوگوں نے آپ ﷺ کی مدد کی جو فوجی طاقت اور قوت کے حامل تھے، جنہوں نے پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مدد دی اور اپنی طاقت کو اسلام کے نفاذ کے لیے پیش کیا۔ آج بھی اس نئی ریاست کے قیام کے لیے ایسی ہی مدد کی ضرورت ہے۔

Check Also

Mitti Ki Khushbu

By Asad Tahir Jappa