Kya Humein Israel Ko Tasleem Kar Lena Chahiye? (2)
کیا ہمیں بھی اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیئے؟ (2)
پھر انہی ممالک نے "لیگ آف نیشنز "کے روپ میں فلسطین پر برطانیہ کے قبضے کو قانونی شکل دیتے ہوئے فلسطین کے لئے برطانوی مینڈیٹ کا اعلان کیا اور اس مینڈیٹ میں یہ واضح طور پر شامل کیا کہ برطانیہ اپنے بیلفور اعلامیہ کی پاسداری کرتے ہوئے فلسطین میں یہودیوں کی مستقل رہائش گا ہ آباد کرے گا۔ لیکن دوسرے ممالک سے آنے والے ممکنہ رد عمل سے بچنے کے لئے جھوٹی تسلی کے طور پر اس مینڈیٹ میں یہ لکھ دیا گیا کہ برطانیہ یہ کام فلسطینیوں کے شہری اور مذہبی حقوق کو متاثر کئے بغیر کرے گا۔ یوں برطانیہ کی فلسطین میں حکومت قانونی طور پر قائم ہو گئی جو کہ ۱۹۴۸ تک جاری رہی۔ اس تمام عرصے کے دوران برطانیہ نے یہودیوں کی فلسطین میں بڑے پیمانے پر امیگریشن کرائی۔ ۱۹۲۲ میں کی گئی مردم شماری کے مطابق اس وقت فلسطین میں ۷۸ فیصد مسلمان آباد تھے اور یہودی صرف ۱۱ فیصد تھے۔ جبکہ آج یہودی اکثریت میں ہیں جو اکثر علاقوں پر قابض ہیں اور مسلمانوں کے علاقے نہایت محدود ہیں اور ایسی کھلی جیلوں کی مانند ہیں کہ جن کے چاروں اطراف پر اسرائیل کی فوجیں خونخوار درندوں کی مانند اپنے اگلے حملے کے لئے تیار بیٹھی ہیں۔
۱۹۳۹ سے ۱۹۴۵ تک جاری رہنے والی دوسری جنگ عظیم میں چونکہ لیگ آف نیشنز کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا کیونکہ یہ ادارہ اس جنگ کو روکنے میں کوئی مثبت کردار ادا نہ کر سکاتھا اور بالکل غیر فعال ہو چکا تھا، تو مغربی ممالک نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اس جنگ کے اختتام کے تقریباً دو ماہ بعد ہی اکتوبر ۱۹۴۵ کو اسی جیسے ایک اور ادارے یعنی یونائیٹڈ نیشنز ( اقوام متحدہ) کو قائم کیا۔ ۱۹۳۹ میں برطانیہ نے ۱۰ سال کے اندر فلسطین سے نکلنے کا اعلان کر دیا تھا اور برطانوی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا تھا کہ فلسطین پر برطانیہ کے مینڈیٹ کا اختتام ۱۴ مئی ۱۹۴۸ کو ہو گا۔ اقوام متحدہ نے برطانیہ کے مینڈیٹ ختم ہونے کی تاریخ سے چند ماہ قبل ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ کو فلسطین سے متعلق ایک متنازعہ قرارداد پاس کی جس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ فلسطین پر برطانیہ کے مینڈیٹ کے اختتام کے بعد فلسطین کی سر زمین پر یہودیوں اور عربوں کی الگ الگ ریاستیں قائم کی جائیں گی جبکہ یروشلم کو ایک الگ بین الاقوامی حکومت کی حیثیت دی جائے گی۔ مسلمانوں نے اس قرار داد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور فلسطین میں ایک بار پھر خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا۔ لیکن اقوام متحدہ کی اس قرارداد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانوی حکومت کے فلسطین پر مینڈیٹ کے اختتام کے آخری روز یعنی ۱۴ مئی ۱۹۴۸ کو فلسطین میں موجود یہودیوں کی قیادت نے باضابطہ طور پر یہ اعلان کیا کہ رات ۱۲ بجےکے بعد ۱۵ مئی ۱۹۴۸ کو اسرائیل کی ریاست کا قیام عمل میں آ جائے گا۔ یہودی قیادت کی جانب سے یہ اعلان ان کے مایہ ناز راہنما ڈیوڈ بن گریون نے کیا جو پھر اس قائم ہونے والی اسرائیلی ریاست کا پہلا وزیر اعظم منتخب ہوا۔
یوں برطانیہ، فرانس اور امریکہ نے مل کر سب سے پہلے لیگ آف نیشنز کے ذریعے فلسطین پر برطانیہ کے نا جائز قبضے کو قانونی جواز فراہم کیا۔ پھر برطانیہ نے اپنی کاوش سے یہودیوں کی فلسطین میں بڑے پیمانے پر امیگریشن کرا کے انہیں باقاعدہ طور پر وہاں آباد کیا۔ اور نا صرف یہ، بلکہ یہودیوں کے مسلح گروہوں جیسا کہ ہگانا، لیہی اور ارگون وغیرہ کی مسلح معاونت بھی کی اور ان کو اپنی افواج کے ساتھ ملا کر فلسطینی مسلمانوں کے جان و مال کاخوب استحصال کیا جیسا کہ خصوصاً ۱۹۳۶ سے لے کر ۱۹۳۹ تک ہونے والی تین سالوں پر محیط خانہ جنگی کے دوران ہوا۔ اور پھر آخر میں اقوام متحدہ نے دو ریاستی حل منظور کرتے ہوئے یہودیوں کی باقاعدہ ایک ریاست کا اعلان کر کے فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کے اس نا جائز قبضے کو قانونی قرار دے دیا۔
آج ایسے ہی دو ریاستی حل کا مسلمانوں کی جانب سے بھی پرچار کیا جا رہا ہے جیسا کہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے ۱۹ اگست ۲۰۲۰ کو برلن میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اسرائیل کو تب تسلیم کرے گا جب وہ فلسطین کے ساتھ ایک امن معاہدہ کر لے گا۔ اسی طرح وزیر اعظم عمران خان صاحب نے بھی اسی دن ایک معروف ٹی وی چینل کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ فلسطین کو آزادی نا دے دے۔ لہٰذا آج اسرائیل کی جانب سے فلسطین کو آزاد کرنے کو یا فلسطین کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کو مسلمانوں کی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے حالانکہ یہ وہ حل ہے جو یہودیوں کے فلسطین کی سرزمین پر نا جائز قبضے کی تصدیق پر مبنی ہے جو کہ سرا سر ایک غلط قبضہ ہے۔ یہ حل فلسطینی مسلمانوں کے سو سال سے بہتے ہوئے خون کو رائیگاں کر دینے پر مبنی ہے۔
مسٔلہ فلسطین کا اصل حل یہ ہے کہ مسلمان حکمران فلسطین کی پوری سرزمین کو اس ظالمانہ قبضے سے آزاد کرا کر اس پر ایک اسلامی حکومت قائم کریں جس میں یہودیوں کو اس ریاست کے غیر مسلم شہریوں کی حیثیت سے رہنے کی اجازت حاصل ہو اور وہ امن کے ساتھ اپنے مذہب پر چلتے ہوئے اپنی عبادت گاہوں میں اپنی عبادات کر سکیں، جیسا کہ خلافت عثمانیہ کے دور میں ہوا کرتا تھا جب فلسطین اس مرکزی اسلامی ریاست کا ایک حصہ تھا اور اس میں مسلمان، یہود، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ پر امن طریقے سے ایک ساتھ زندگی بسر کیا کرتے تھے۔