Hagia Sophia Per Nazriati Behas (2)
آیا صوفیہ پر نظریاتی بحث (2)
مغربی مستشرقین کی نفرت و عناد کی ایسی ہی جھلک ان کے فتح قسطنطنیہ کے بیان میں بھی نظر آتی ہے جو کہ دراصل مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی عظیم سلطنت کے سیاسی اور مذہبی مرکز کی ایک تاریخی فتح تھی۔ برطانوی مورخ اور سیاستدان ایڈورڈ گبن (۱۷۹۴ء) جس کو مغرب میں ایک محقق کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، وہ بھی جب اپنی معروف کتاب "سلطنت روم کا عروج و زوال" میں قسطنطنیہ کی فتح کے بارے میں لکھتا ہے تو اس کی ایسی منظر کشی کرتا ہے کہ جیسے تاریخ میں اس سے زیادہ بدکردار اور کوئی فوج یا امیر لشکر نہ گزرے ہوں۔ وہ لکھتا ہے کہ قسطنطنیہ میں داخلے کے بعد جب شہر کے اکثر مرد، عورتیں، بوڑھے اور بچے آیا صوفیہ میں پناہ کی خاطر جمع ہو گئے تو سلطان محمد فاتح اپنی فوج کے ہمراہ وہاں پہنچا اور کلہاڑوں سے چرچ کے دروازوں کو توڑتے ہوئے اس میں داخل ہوا۔ پھر اندر موجود عیسائیوں کے ساتھ شدید بد اخلاقی سے پیش آیا گیا یہاں تک کہ ننز کو برہنہ تک کیا گیا۔ پھر تمام لوگوں کو زنجیروں سے باندھ کر غلام بنا لیا گیا اور بچوں اور بچیوں سمیت ساٹھ ہزار سے زیادہ مرد عورتوں کوآس پاس کے شہروں کے بازاروں میں بیچ دیا گیا۔ کم و بیش ایسا ہی نقشہ برطانوی مورخ ایڈورڈ شیفرڈ کریسی (۱۸۷۸ء) نے اپنی کتاب " عثمانی ترکوں کی تاریخ" میں کیا ہے۔ اسی طرح بعض نے سلطان فاتح کی جانب سے اپنی فوج کو پورے شہر میں تین دن تک لوٹ مار کرنے کی اجازت دینے کا ذکر کیا ہے کہ جس میں عیسائی عورتوں کی عصمتوں کو پامال کیا گیا اور شہر کے خزانوں کو کھلے عام لوٹا گیا۔ بعض مستشرقین نے یہ بھی لکھا ہے کہ عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں اور بچوں کو بھی بلا تفریق زنا کا نشانہ بنایا گیا۔
جبکہ اس کے بالکل برعکس تاریخ کے روشن حقائق ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ سلطان محمد الفاتح کا قسطنطنیہ سمیت باقی تمام مہمات و فتوحات کا محرک غلبہ اسلام تھا اور خصوصاً فتح قسطنطنیہ کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کی اس بشارت کو حاصل کرنا تھا جس میں رسول اللہ ﷺ کی جانب سے قسطنطنیہ کے فاتح لشکر اور اس کے امیر کی تحسین فرمائی گئی ہے۔ لہٰذا اس تاریخی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قسطنطنیہ کی مہم ایک شرعی فریضہ سمجھتے ہوئے مسلمانوں اور ان کے امیر کی طرف سے لڑی گئی تھی۔ تو بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ اس فتح کے بعد اجتماعی طور پر مسلم افواج کی جانب سے ایسے گھناؤنے اعمال کئے جاتے یا امیر لشکر کی جانب سے اس کی اجازت دی جاتی جن کی شریعت میں صریح طور پر ممانعت موجود ہے۔ ڈاکٹر علی محمد الصلابی اپنی کتاب "سلطنت عثمانیہ" میں سلطان فاتح کے مغلوب نصرانیوں کے ساتھ برتاو ٔ کے باب تلے لکھتے ہیں:"سلطان محمد فاتح کلیسا آیا صوفیہ تشریف لے گئے۔ وہاں بہت زیادہ لوگ جمع ہو چکے تھے۔۔۔ جب سلطان کلیسا کے دروازے پر پہنچے تو کلیسا میں موجود نصرانی بہت ڈرے۔ ایک راہب نے اٹھ کر سلطان کے لئے دروازہ کھولا۔ سلطان نے راہب سے کہا کہ لوگوں سے کہو پر سکون رہیں۔ کسی قسم کا اندیشہ نہ کریں اور اطمینان سے اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔ یہ بات سن کر لوگ خوش ہو گئے"۔ پھر مزید لکھتے ہیں کہ:"سلطان مذہبی رہنماؤں کے مجمع میں گیا۔ ان کے خوف کو دور کیا اور انہیں اس بات کا یقین دلایا کہ ان کے عقائد و نظریات ان کے مذہبی قوانین اور ان کی عبادت گاہوں کے معاملے میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ سلطان نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنا نیا بشپ منتخب کر لیں۔ مسیحیوں نے اپنی صوابدید پر جناڈییس (مشہور مذہبی مفکر اور فلسفی) کو اپنا نیا بشپ منتخب کیا۔ جناڈییس بطریق منتخب ہونے کے بعد پادریوں کے ایک بہت بڑے جلوس میں سلطان کی رہائش گاہ پر آیا۔ سلطان نے بڑی گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا اور اس کی بڑی عزت افزائی کی یہاں تک کہ سلطان نے اس کے ساتھ کھانا کھایا اور مختلف دینی، سیاسی اور معاشرتی موضوعات پر گفتگو کی۔ اس ملاقات کے بعد جب بشپ سلطان کی رہائش گاہ سے باہر آیا تو عثمانی ترکوں اور سلاطین، بلکہ عام مسلمانوں کے بارے میں اس کے نظریات تبدیل ہو چکے تھے۔۔۔ رومی بذات خود اپنے بشپ سے کچھ کم حیران اور متاثر نہیں تھے۔ وہ تو سمجھتے تھے کہ انہیں قتل عام کا سامنا ہو گا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ انہیں ہر طرح کی مکمل آزادی حاصل ہو گئی۔ اور تھوڑے دن ہی گزرے تھے کہ لوگ اطمینان اور امن و سلامتی سے دوبارہ پہلے کی سی زندگی گزارنے لگے"۔
اس تمام بحث سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ سے متعلق عمومی طور پر اور خصوصاً مسلمانوں کی مغرب پر فتوحات کے سلسلہ میں مغربی مستشرقین کو حرف آخر سمجھنا کتنی فاش غلطی ہے۔ اور جس معاملہ میں مغربی مستشرقین اور مسلمانوں یعنی دونوں اطراف کی تواریخ موجود ہوں اور آپس میں اس حد تک ٹکراتی بھی ہوں تو اس میں مغربی مستشرقین کی مذہبی تعصب سے بھری تاریخ کو آنکھیں بند کر کے قبول کر لینا کہاں کی ذہانت ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضرت عمر ؓ نے القدس فتح کرنے کر بعد وہاں کے مرکزی چرچ کو مسجد میں تبدیل نہ کیا لہٰذا سلطان محمد فاتح کا آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنا ایک ایسا عمل ہے جو خود اسلام یا اس کے بلند اخلاقی معیار کے خلاف ہے۔ تو اس سلسلہ میں شریعت کا حکم دراصل یہ ہے کہ ایک اسلامی حکومت اس بات کی یقین دہانی کرتی ہے کہ اس کے غیر مسلم شہری آزادی کے ساتھ اپنی عبادت گاہوں میں اپنی عبادات یا دیگر مذہبی رسومات انجام دیں سکیں اور ایسا ہی سلطان محمد الفاتح نے قسطنطنیہ کے معاملہ میں بھی کیا۔ لیکن اسلامی حکومت اس بات کی پابند نہیں ہوتی کہ کسی علاقہ کو اسلام کے لئے فتح کرنے کے بعد غیر مسلموں کی تمام عبادت گاہوں کو لازمی طور پر قائم رکھے۔ لہٰذا ایسی عبادت گاہیں جو ریاست کے غیر مسلم شہریوں کی ضرورت سے زیادہ ہوں یا پھر ایسی عبادت گاہیں جو اس قدر نمایاں ہوں کہ اسلامی ریاست کے اندر ان مذاہب کی تشہیر کا باعث بنیں تو یہ مسلم حکمران کی صوابدید پر ہے کہ چاہے تو انہیں قائم رہنے دے یا ان کو کسی اور مقصد کے لئے استعمال کر لے۔ لہٰذا سلطان محمد الفاتح کا آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کر لینا جبکہ حضرت عمر ؓ کا القدس کے چرچ کو قائم رہنے دینا بطور مسلم حکام ان کی اپنی اپنی رائے کے پیش نظر تھا اور یہ شریعت کے حکم یا بلند معیار کے خلاف نہیں تھا۔