Ye Kaisi dagar Hai
یہ کیسی ڈَگَر ہے
اصحابِ رسول کریمؐ صدقے کا ایک لقمہ بھی اگرغلطی سے منہ میں چلاجاتا تو قے کر دیتے، جس وقت تک حلق سے اسے نکال باہرنہ کردیتے، قرار نہ پاتے تھے۔ خود حضور اقدسﷺ ایک مرتبہ تمام رات جاگتے رہے اور کروٹیں بدلتے رہے اس خوف سے کہ ایک کھجور پڑی ہوئی تھی وہ، اٹھا کر کھالی کہ ضائع نہ ہو اب یہ فکر طاری تھی کہ کہیں وہ، صدقے کی نہ ہو۔
ایمان اور محبت الہی کے جذبے سے سرشار انکی روح اور دل صرف اسی تمنا میں زندگی گزارتے کہ ان کا خالق ہر دم ان سے راضی رہے، کوئی خطاسرزد ایسی نہ ہو جائے کہ ربِ کائنات ناراض ہوکر انہیں خود سے دورکر دے۔ اگرچہ اپنے رب کی اطاعت و فرماں برداری میں بے مثال، آگے بڑھ جانے والوں میں سے تھے، مگر پھر بھی خوفِ خدا سے ان کے دل لرزتے اور چہرے آنسوؤں سے تر رہتے تھے۔ جب تک یہ اطمینان نہ آجاتاکہ مال کن ذرائع سے آیاہاتھ نہ لگاتے تھے۔
آج افسوس امتِ محمدیہؐ جو کہ بہترین امت ہے، بلاشبہ وہ اس پر فخر کرتی ہے لیکن اپنےآقانبی کریم ﷺ کی سیرتِ زندگی کو چھوڑ کر مال کی محبت میں اس قدر گرفتارہے کہ سود، رشوت، جھوٹ، منافقت اور دھوکہ دہی سے حاصل کئے گئے مال پر اپنا حق سمجھتی اور اسے کمیشن کہتی ہے وہ یقیناً یہ فراموش کرگئی کہ جب صدقے پر ہمارے اکابرین کی ممانعت اور احتیاط کا عالم یہ تھا تو آج رشوت، ملاوٹ، دغابازی کسے جائز ہو سکتی ہے اور سود جو اللہ اور اس کے رسول سے اعلانِ جنگ ہے اس کا وبال اور عذاب اتنا چھوٹا کیسے ہو سکتا ہے، نتیجاًبرکتیں لُٹتی ہیں، وبائیں اُترتی ہیں، اور اس کا خمیازہ نسلیں بھگتی رہتی ہیں۔
اوراپنے رب کی نافرمانی کے بعد اعمالِ بد پر شرمندگی و ملامت کے بجائے یہ رائے دیتے ہیں کہ حالات کا تقاضا ہے زمانہ پہلا جیسا نہیں رہا؟ رشوت کے بغیر کام چلتا نہیں؟ بغیرسود کے کاروبار پھلتا پھولتا نہیں؟ کیا ایک مسلمان ایک مومن کوایسا طرزِعمل زیب دیتا ہے، جو پیارے نبیؐ کا امتی، بخشیش کا امیدوار ہو، قیامت میں اپنے نبیؐ کی شفاعت کا منتظر، ان کے ہاتھ مبارک سے حوضِ کوثر پینے کا طلب گار ہو۔
ہم کس ڈگر پر چل رہے ہیں، کہاں جا رہے ہیں، جھوٹ جس کے بنا کوئی تجارت، معاملات کی تکمیل ممکن نہیں رگوں میں ایسے سرایت کر رہا ہےجیسے خون دوڑتا ہے، ہمارے آقا رسولؐ کا وہ فرمان جس کا مفہوم ہے میرا امتی سب کر سکتا ہے مگر جھوٹ نہیں بول سکتا، دھوکہ نہیں دے سکتا "ہماری نگاہ میں کیسے معمولی۔۔ بن گیا؟ اور کیوں۔۔؟ بددیانتی اور جھوٹ کے ذریعے کس طرح اوپر والا صاحبِ اختیاراپنے نچلے والوں کو لوٹ رہا ہے۔ کوئی ادارہ، آفس، گھر شاید ہی اب اس سے محفوظ ہو، منافقت ہر سو پھیل گئی۔
ہمارا مسلمان معاشرہ اورہم مسلم ملک میں رہتے ہیں مگر المیہ یہ کہ اب یہاں کسی دوسرے پر اعتماد مشکل سے آتا ہے۔ ہرشخص کسی نہ کسی طرح اپنے مسلمان بھائی کے ہاتھوں لُٹاہوا ضرور ہے۔ رشوت مسلمان مانگ رہا ہے اور مسلمان ہی دے رہا ہے، سود کو اسلامی معاشرے میں جگہ کیوں ملی اور اس پر روک تھام ناممکن کیوں ہے؟
پھر مسلمان سکون کیسے پائے؟ اللہ کا عذاب کیوں نہ آئے۔ ایمان اگر رخصت ہو تو گناہ مجبوری بن جاتا ہے گناہوں سے ایمان ہی تو بچاتا ہے، اس لیے ایمان بنانے کی محنت اور اسے بڑھانے کی فکر ضروری ہے۔ ورنہ فتنوں کے اس پُرفتن دور میں کوئی فتنہ ہمیں بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے، پھر ہوتا کیا ہے؟ نیکی مشکل اور گناہ آسان ہوجاتا ہے۔ لذتِ گناہ بڑھتی، اوراطاعت کی جانب رغبت گھٹتی جاتی ہے۔ رشوت عام سود نفع، اور سچ گھاٹا لگتا ہے۔
معاشرے میں تیزی سے پھیلتی دھوکہ دہی کی وبا کا کنٹرول اگرچہ ہمارے بس میں نہیں مگر اس مقصد کے حصول کی چاہ میں، ہمیں اپنے حصے کا دیا جلانا، ایک بیج تو ضرور لگانا ہوگا، اپنا فرض نبھانا ہوگا، ہم اپنے معاملات میں سچے بن جائیں، اپنے رزق کو پاک، نیت کو صاف اور اعمال کو اخلاص سے آراستہ کرلیں، ساتھ اپنے دوسروں کو بھی صحیح راہ کی پہچان کروائیں، خسارےکا اندیشہ ہو، تب بھی نقصان سے باور ضرور کرائیں، اور یہ اطمینان کرلیں سچ بولنے حلال کمانے اور پاک صاف رہنے والوں کو دنیا میں بھلے نفع نہ دِکھے، مگر اس کا وعدہ سچا آخرت میں اس کی جزا سے رب اِنھیں محروم نہیں رہنے دے گا۔ اور دنیا میں بھی اپنا کرم وفضل عنایت کر دے گا۔