Umm Ul Momineen Hazrat Hafsa
ام المومنین حضرت حفصہ
والد محترم امیر المومنین خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ اور والدہ مشہور صحابی حضرت عثمانؓ بن مظعونؓ کی ہمشیرجو خود بھی صحابیہ تھیں حضرت زینب بنت مظعونؓ تھیں۔ سرور کونین حضرت محمد ﷺ کی تمام ازواج مطہرات میں چوتھے نمبر پر شامل وہ خوش نصیب خاتون حضرت حفصؓہ بنت عمرؓ ہیں۔ سلسلہ نسب یوں کہ حفصؓہ بنت عمرؓ ابن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن لوی بن صبربن مالک۔
حضرت حفصؓہ بعثت نبویﷺ سے پانچ سال قبل مکّے میں پیدا ہوئیں، اس وقت قریش خانہ کعبہ کی تعمیر میں مصروف تھے اپنے والد محترم، والدہ ماجدہ اور اپنے پہلے شوہر خینسؓ بن حذافہ جو خاندان بنو سہم سے تھے کے ساتھ ہی مشرف بہ اسلام ہوئیں۔
کفار مکہ نے جب مسلمانوں پر مظالم ڈھانے شروع کیے اور ہجرت کا جب حکم آیا تو آپؓ بھی اپنے پہلے شوہر کے ہمراہ مدینہ منورہ ہجرت کر گئیں۔ کفار کے مقابلے میں جو پہلی جنگ غزوہ بدر ہوئی، حضرت خینسؓ بھی اس میں شانہ بشانہ شامل تھے حق اور اسلام کی خاطر لڑتے ہوئے بے تحاشہ زخم کھائے اور واپس آکر انہیں زخموں کی وجہ سے جامِ شہادت نوش فرمائی۔
عدت کے بعد حضرت عمرؓ کو ان کے نکاح کی فکر لاحق ہوئی اسی زمانے میں حضرت عثمان ؓکی زوجہ حضرت رقیؓہ رحلت فرما گئیں تھی تو حضرت عمرؓ سب سے پہلے ان کے پاس گئے حفصہؓ کے نکاح کی خواہش کی، مگر چند یوم غور کرنے کے بعد انہوں نے صاف انکار کردیا، اب حضرت عمرؓ نے مایوس ہو کر حضرت ابوبکر ؓسے بھی اپنی مراد ظاہر کی وہ بھی خاموش ہوگئے۔ اس خاموشی سے حضرت عمر رضی اللہ عنہا رنجیدہ ہو گئے۔ اس کے بعد خود سردار الانبیاء حضرت محمدﷺ نے حضرت حفصؓہ سے نکاح کی خواہش کی۔ نکاح مبارک ہو گیا تو حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ سے ملے اور کہا کہ جب تم نے مجھ سے نکاح کی خواہش کی تو میں خاموش رہا کیونکہ رسول اللہﷺ نے مجھ سےان سے نکاح کی خواہش ظاہر کی تھی اور میں تمہیں بتا دیتا تو انکا راز فاش کر دیتا اگر رسولﷺ کا ان سے نکاح کا قصد نہ ہوتا تو میں اس کے لئے آمادہ تھا۔ (صحیح بخاری ج۶ص۵۷۱واصابہ ج۸ص۵۱)
آپؓ حصولِ علم سے گہرا شغف رکھتی تھیں۔ حضرت حفصہؓ سے چالیس حدیثیں منقول ہیں، جو انہوں نے حضرت ﷺ اور والد حضرت عمرؓ سے سنی تھیں۔
ایک مرتبہ حضورﷺ نے فرمایا کہ میں امید کرتا ہوں کہ اصحابِؓ بدر وحدیبیہ جہنم میں داخل نہ ہوں گے حضرت حفصہؓ نے اعتراض کیا کہ خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے وان منکم الاواردھا" تم میں سے ہر شخص وارد جہنم ہوگا "آپؐ نے فرمایا ہاں، لیکن یہ بھی تو ہے.ترجمہ"پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اس میں زانوؤں پر گرا ہوا چھوڑ دیں گے"(مسند امام احمد بن حنبل ج۶ص۲۸۵)۔
آپؓ اخلاق میں صائم النہار تھیں۔ ابن سعد میں ان کے اخلاق کے متعلق ہے۔ ترجمہ"وہ یعنی حفصہؓ صائم النہار اور قائم اللیل ہیں"۔ دوسری روایت سے ثابت ہے" آپؓ انتقال کے وقت تک صائم رہیں "آپ اختلاف سے سخت نفرت کرتی تھی آپ کے مزاج میں ذرا تیزی تھی اپنے والد محترم کی طرح آپ بھی نڈر تھیں حق بات اور دل میں آۓ خیالات کا اظہار کرنے سے ذرا نہ ہچکچاتی حضرتؐ سے کبھی دو بدو گفتگوکیا کرتیں اور کبھی برابر کا جواب بھی دے دیا کرتیں تھیں۔
حضرت عائشہؓ جو حضور اکرمؐ کی زوجہ اور حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی تھیں اور حضرت حفصہؓ بھی زوجہ نبی ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت عمر فاروقؓ کی بیٹی تھیں۔ جو تقرب نبویؐ میں سب سے آگے اور آپؐ کو عزیز تر تھے اسی بنا پر حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ بھی دیگر ازواج کے مقابلے میں باہم ایک تھیں واقعہ تحریم جو ۹ ہجری کو پیش آیا، اسی قسم کے اتفاق کا نتیجہ تھا۔
حضرت امیر معاویہ کے زمانہ خلافت میں ایک روایت کے مطابق حضرت حفصہ شعبان ۶۵ ہجری جس میں اختلاف ہے۔ جبکہ دوسری روایات کے مطابق جمادی الاول۴۱ہجری میں انتقال کر گئیں۔ اسی مناسبت سے ماہ جمادالاولی کے خاص مضامین میں یہ موضوع شاملِ خاص ہے۔ وقتِ رخصت حضرت حفصؓہ نے اپنے بھائی حضرت عبداللہ بن عمر کو بلا کر وصیت کی اور غابہ میں جو جائیداد تھی، جو حضرت عمرؓ انھیں دے کر گئے تھے ان سب کو صدقہ کر کے وقف کردیا۔ مروان جو اس وقت مدینے کا گورنر تھا، نماز جنازہ پڑھائی اور ان کے حقیقی بھائی حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور ان کے صاحبزادوں عاصم، سالم عبداللہ، حمزہؓ نے انہیں لحد مبارک میں اتارا۔