Mushkilat Bhi Qurb e Ilahi Ka Zariya Hain
مشکلات بھی قربِ الہی کا ذریعہ ہے
یہ حقیقت ہے کہ جب انسان غمگین ہو، کسی رنج، دکھ، تکلیف سے دو چار، یا کوئی حاجت درپیش ہو، کسی خاص مقصد کی تکمیل، دوا، شفا، عطا کاطلب گار ہو تو سب سے پہلے اس کی نگاہ اپنے مالکِ حقیقی کے رحم و کرم ہی کی طرف اٹھتی ہے۔ اسے پکارتا ہے، التجاء کرتا ہے، اپنی فریاد اسی کے حضور پیش کرتا ہے۔ کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو، بھلے رب کو بھولا بیٹھا ہو مگر جب بھی کسی آفت یا مشکل میں مبتلا ہو جائے تو بے اختیار اپنے رب کو پکارنے لگتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے اس کا رب مہربان ہے، منہ نہیں موڑے گا اور اس کے سوا کوئی اس کا مددگار بھی نہیں ہے، کُن پر منحصر اس کی منشا جسے کسی سبب کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ بھی یقینی بات ہے کہ جتنا انسان مشکل یا غم میں اسے پکارتا ہے اتنا آسائش میں نہیں، جس تڑپ ولگن سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے وہ تڑپ اس وقت تک بیدار نہیں ہوتی جب تک دل زخمی نہ ہو، درد کے بغیر بعض اوقات طلب سچی بھی نہیں ہوتی۔
مصیبتیں، مشکلات، مرض، آفات ضروری نہیں کہ لازماً، اپنے اعمال کی وجہ سے آۓ، یا آزمائش ہو بلکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے اور کئی بار ہوا ہے کہ انسان، کسی رنج و غم میں مبتلا ہوا، اور درد، اور ٹھوکر نے اسے اپنے رب سے جوڑ دیا، وہ تڑپ، آہ اور زمانے نے اسے اپنے رب کے قریب کردیا، دنیا کی حقیقت سمجھ آگئی، فانی لذتیں بے معنی لگنے لگی، اسے قرب الہی نصیب ہوا وہ اطمینانِ قلب حاصل ہوا کہ جس کے سامنے زمین کے سارے خزانے اور راحت آسائشیں بھی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بزرگانِ دین، ولی اللہ جو اس دولت کو پا گئے تو پھر وہ دنیا اور اس کی رغبت کو خیرباد کہہ گئے، قرب الہی کو پانے کی جستجو اور تڑپ جو جاگی تواسکی تلاش میں اپنی سلطنتیں تک چھوڑ کر جنگلوں اور پہاڑوں میں روپوش ہوگئے۔
اس کا قرب جسے نصیب ہو جائے، وہ اللہ کا ہوجاۓ، اور اللہ اسے اپنا بنا لے، اسے بھلا اور کیا چاہیے ہوگا ساری نعمتوں سے بڑھ کر یہ ایک نعمت ہے جسے اللہ چاہتا ہے تو خود عنایت کر دیتا ہے۔ وگرنہ اس لذت سے محروم بے شمار لوگ غفلت میں ہی دنیا چھوڑ بیٹھتے ہیں۔
اللہ مصیبتیں بھیج کر اپنے بھولے ہوئے بندوں کو اپنی طرف رجوع کا پیغام بھیجتا ہے، اپنی طرف پلٹ آنے کا جواز دیتا ہے۔ اگر ہم ان مشکلات گھٹن بے چینی، اضطراب کو قرب الہی کا ذریعہ سمجھیں، اس کی طرف پلٹ آئیں، اس کی منشا پر راضی ہوجائیں بجائے ناشکری کا واویلا کرکے اس کی باقی نعمتوں کی ناقدری کرنے لگیں، تو پھر ہم واقعی اسے ناراض کر بیٹھے گیں اور اس کی رحمت، فضل و کرم کا دروازہ خود پر بند کر لےگیں۔
ایسے درد کو بھی رب کی مہربانی جانیں جو رجوع الی اللہ کی طرف لے جائیں۔ اس کی رضا کو اپنی رضا بنا لیں، اسے گناہوں کا کفارہ سمجھیں، یہ تکالیف، پریشانیاں بعض اوقات گناہوں کی معافی، اور بعض اوقات درجات کی بلندی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ وہ تو وہ رب ہے جو ہر تکلیف پر بھی مومن کو اجر دیتا اور بے حساب دیتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا۔
"کسی مسلمان کو کوئی مشقت، کوئی تھکن، کوئی فکر، کوئی رنج، اذیت، ٹینشن، ڈپریشن، پریشانی نہیں پہنچتی کہ جس کی وجہ سے اس کے گناہ معاف نہ ہو جائیں" (مشکوٰۃ حدیث نمبر 1451، بخاری ومسلم)۔
بے شک وہ نعمت بھی وبال ہے جس میں کھو کر انسان اپنے رب کی یاد بھلادے۔ مشکلات قرب الہی کا ذریعہ ہیں، وہی مشکل کشا اور کارساز ہے اپنا رجوع ان مسائل میں اپنے خالق سے اتنابڑھا دیں کہ اسکاہمیں قُرب مل جاۓ، اسکی رضا ہماری رضا ہوجاۓ، اور ہماری رضا سے وہ راضی ہوجاۓ۔