Kya Hum Itaat e Ilahi Ke Liye Tayyar Hain?
کیا ہم اطاعت الہی کیلئے تیار ہیں؟
"اے ایمان والو ایسے بن جاؤ (کہ اللہ کے احکام کی پابندی کے لیے) ہر وقت تیار ہو۔"(القرآن) سورۃ المائدہ
اگر ہم سب اپنا محاسبہ کریں، خود کو جانچیں، اپنی زندگی میں نظر دوڑائیں کہ آیا، ہم احکام الہی کی فرمانبرداری کے لئے تیار رہتے ہیں یا اس کے حکموں سے ہی غافل ہو کر غفلت کا شکار ہوگئے ہیں اور ایسی غفلت جس کا ہمیں احساس ہے نہ اسے دور کرنے کی کوشش اور فکرجاری ہے۔
آج اگر ہم رسوا اورشکستہ ہیں تو کیوں نہ ہوں۔ ہم بھٹک گئے، اس کے احکام کو جانتے ہیں پر مانتے، اپنی مرضی سے ہیں۔ اس کے احکام کو حکم سمجھ کر اس کی اطاعت کو اپنی منزل نہیں سمجھا، ہم اطاعت الہی کے لیے تخلیق کئےگۓ، مگر مقصدِ تخلیق کو ہی فراموش کرگئے۔"اپنی زندگی اپنی مرضی کے قانون" کو اپنا اصول بنا لیا۔
حکم تو یہ ملا کہ جو بھی اس کی مرضی ہو فوراً بجا لاؤ، معاملاتِ دنیا میں، اسکی اطاعت کی نیت کرکے دنیا کو بھی دین بنادو، مگرمجبور بن کر اس کی نافرمانی کو ہم نےمصالحت بنالیا، اللہ کے نیک بندے جن کے دل اسکی محبت و اطاعت سے مزین ہے مگر پھر بھی، دل خوفِ خدا سے ایسے لرز رہے ہیں کہ کہیں خدا ان سے ناراض نہ ہو ورنہ انکا کیا بنے گا۔ آنکھوں سے اشک جاری مغفرت کی سفارش کے لیے تڑپ رہے ہیں، زارو قطار رو رہے ہیں اور ہم ایسے بد نصیب جو اپنے گناہوں پر بھی بجائے نادم اور شرمندہ ہونے کے اترا رہے ہیں۔ اسکی خوشنودی سے زیادہ اہم، ہمارے نزدیک رسم و رواج کی پابندی ہے، خالق بھلے خفا ہو جاۓ مگر رسم نہ ٹوٹے، اس کا ایک حکم بھی ٹوٹا تو بربادی ہے مگر ہم احکامِ شکنی کرتے چلے جارہے ہیں۔ قرآن مجید میں اس نے متعدد بار خود سے ڈرتے رہنے کا حکم دیا، تاکہ اس کا خوف ہمیں بھٹکنے نہ دے۔ اس کی محبت سے جو محروم ہوئے تو اطاعت بھی مشکل لگنے لگی۔ اسکا ڈر جو دل سے رخصت ہوا تو گمراہی بھی یقین لگنے لگی۔
دنیا کی محبت اس قدر چھا گئی کہ آخرت پیچھے رہ گئی جبکہ دنیا ہمارے لئے اور ہم آخرت کے لیے ہیں مگر ایسے مگن ہوۓ، تیاری اور محنت صرف دنیا کو بنانے کے لئے وقف کردی۔ دنیا منع نہیں مگر اس کے حصول میں آخرت برباد نہ ہو۔ فانی دنیا کے لیے آخرت جو کہ ہمیشہ قائم رہنے والی ہے، داؤ پر لگا دینا کون سی عقلمندی ہے۔
اس نے کہا کہ جھوٹ نہ کہو، ہم نے کہا "تھوڑا بہت تو چلتا ہے"۔ اس نے کہا غیبت اسے پسند نہیں۔" ہم نے اسے دل کا بوجھ دور کرنے کی دوا اور اندازِ گپ شپ بنا ڈالا" اس نے کہا حرام سے بچو "ہم نے حرام کو بھی حلال کہہ کر خود پر لازم کر لیا" اس نے کہا سود نہ کھاؤ، ہم نے سود کو بھی منافعے کا نام دے دیا اس نے کہا اخلاق نہ چھوڑو ہم نے کہا "بروں کے ساتھ برا بننا پڑتا ہے" موسیقی کو حرام قرار دیا تو ہم اسے دل کا سرور، غذا سمجھ بیٹھے۔ کہا انصاف سے کام لو، ناانصافی نہ کرو" ہم نے ناپ تول میں کمی اور چیزوں میں ملاوٹ کو منافع بخش فارمولا تشکیل دے دیا۔" اور بہت سے احکام جو ہم یہ سمجھ کر توڑتے چلے گئے اور برابر توڑ رہے ہیں کہ "سب ہی تو کرتے ہیں" اب تو گناہوں کےاس قدر عادی ہوگئے کہ نہ ملال ہے اور نہ کوئی خوف اور توبہ کی توفیق اور اطاعت کی طرف رغبت بھی جو کثرت گناہ کی وجہ سے چھین لی گئی ہے۔
پھررب ناراض کیوں نہ ہوں؟ ہم پریشان کیوں نہ ہوں؟ روح زخمی ہے تو سکون کیونکر ملے گا، جب اللہ ناراض ہو تو ظالم حکمران مسلط کر دیتا ہے آج ہم حکمران سے بے زار، حالات کا رونا روتے، اپنی قسمت سے نالاں، پرسکون نیند ہم سے روٹھی، اطمینانِ قلب کو ترسے اور اس کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ مگر جہاں درد ہے، مرہم وہاں نہ لگا تو کوئی فائدہ نہیں۔ خدا جب تک ہم سے ناراض ہے زندگی میں کوئی سکون نہیں۔ سکون جو کہ مال و دولت کا محتاج نہیں۔ رب کی اطاعت میں ہے۔ اللہ کے مقرب بندے ولی اللہ فرماتے تھے کہ جو اطمینان قلب انہیں حاصل ہے اگر امراء کو اس کی خبر ہو تو وہ ان سے اسے چھینے کی کوشش کریں، اوراسکے حصول میں، اپنا سب کچھ قربان کر دیں۔
مگر یہ مل سکتا ہے، اب بھی اگر ہم چاہیں، اسے منا لیں، اپنے معاملات ٹھیک کر لیں، گناہوں سے توبہ کرکے احکام الہی کا خود کو پابند بنالیں، وہ غفور الرحیم بہت معاف کرنے والا، کسی پر ظلم نہیں کرتا، ظالم ہم خود ہیں، اس کی نافرمانی کرکے ظلم ہم خود کر رہے ہیں۔ یہ وبائی بیماری بھی اللہ ہم سے دور کر دے گا ورنہ اس کی اطاعت میں اگر موت آئے بھی تو کیا غم ہے، ہماری منزل بھی تو آخر وہی ہے، بس وہ راضی ہو تاکہ اصل کامیابی ہماری منتظر ہو۔