Fazail e Ramzan
فضائل رمضان
ماہِ رمضان کو تمام مہینوں میں سب سے زیادہ فضیلت حاصل ہے، اس ماہ کو اللہ عزوجل نے اپنا مہینہ قرار دیا کیونکہ اس مہینے مہربان رب کی رحمتوں کا نزولِ خاص ہوتا ہے، اس میں ایک نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابر کردیا جاتا ہے، اس کا ہر دن ہر رات بلکہ ایک ایک لمحے میں برکتوں رحمتوں اور مغفرتوں کی بہتات ہوتی ہے، دن میں روزہ اور رات میں تراویح جیسی عظیم عبادت دے کر اللہ مسلمانوں کو بخشش کے مواقعے دیتا ہے، اور آخری عشرے کا اعتکاف اور طاق راتوں میں قیام اور لیلۃ القدر عنایت کرکے اس ماہ کوہمارے لیے جنت کے حصول اور جہنم سے خلاصی کے لیے اللہ سبحانہ تعالی نے آسان بنا دیا، اب اس نیکیوں کے موسمِ بہار سےبھرپور استفادہ نہ اٹھانے والا حقیقت میں بڑابد قسمت ہے۔
جب رمضان المبارک کا مہینہ آجاتا تو آپؐ صحابہ کرامؓ کو اس کی آمد کی بشارت دیتے اور فرماتے تمہارے اوپر ایک مبارک مہینہ آرہا ہے اور یہ دعا سکھلاتے "اے اللہ!مجھے رمضان میں سلامتی عطا فرما اور رمضان کو مجھ سے سلامتی عطا فرما اور اسے میرے لئے سلامتی کے ساتھ قبول فرما" آپؐ اس ماہ کا بھرپور استقبال کرتے اور اسے بہترین گزارنے کی تاکید کرتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے " جب رمضان کا مہینہ آتا تو رسولؐ کمرِ ہمت کس لیتے اور اپنے بستر پر تشریف نہ لاتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا"شعب الایمان للبیہقی:ج3ص310
لیکن جب رمضان کی آخری دس راتیں آتیں تو سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں "رسولؐ آخری دس دنوں میں جو کوشش فرماتے وہ باقی دنوں میں نہ فرماتے تھے"۔ آپؐ اس ماہ کو جہد و مشقتوں سے عبادتوں میں گزارتے، عبادات اور ریاضت میں آپؐ کا ویسے بھی کوئی ثانی نہیں مگر آخری عشرے میں آپؐ کی کوشش اور بھی بڑھ جاتی تھی، اوریہی اس ماہِ مبارک کا تقاضہ ہے کہ اس کا لمحہ بھی اللہ کے ذکر اور اسکی یاد سے خالی نہ جانے دیا جائے، فضائل سے بھرے اس ماہ کے ثمرات کو پورا کا پورا حاصل کرنے کی کم ازکم سعی تو ضرور کیا جائے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا میری امت کو رمضان شریف میں پانچ چیزیں خاص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں دی گئیں
1۔ ان کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
2۔ ان کے لیے فرشتے دعا کرتے ہیں حتیٰ کہ افطار کے وقت تک دعا کرتے ہیں۔
3۔ جنت ہر روز ان کے لیے سجا دی جاتی ہے پھر اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ عنقریب میرے نیک بندے مشقتیں اپنے اوپر سے ہٹا کر تیری طرف آئیں گے۔
4۔ اس مہینے میں سرکش شیاطین قید کر دئیے جاتے ہیں اور لوگ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں جا سکتے ہیں۔
5۔ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے۔
صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، کیا یہ شب قدر ہے؟ ارشاد فرمایا نہیں بلکہ دستور ہے کہ مزدور کو مزدوری کام ختم ہونے کے وقت دے دی جائے۔
(مسند احمد:ج8ص30 رقم الحدیث7904)
آپؐ اس ماہ میں دعا اور استغفار کی کثرت کرتے، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرامؐ کا ارشاد ہے کہ "تین آدمی کی دعا رد نہیں ہوتی جن میں سے ایک روزہ دار کی جب وہ روزہ افطار کرتے وقت مانگتا ہے"۔ حضرت عمر بن خطابؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ" رمضان میں اللہ تعالی کا ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے اور اس مہینے میں اللہ تعالی سے مانگنے والا بے مراد نہیں رہتا" (شعب الایمان للبیہقی:ج3ص 311 فضائل شہر رمضان)۔
حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا" رمضان کی جب پہلی رات ہوتی ہے تو آسمان کے سب دروازے کھول دیے جاتے ہیں کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور ایسا رمضان کی آخری رات تک ہوتا ہے اور مومن بندہ رمضان کی کسی رات میں نماز پڑھتے ہوئے سجدہ کرتا ہے تو اللہ ہر سجدے کے بدلے اس کے لئے ڈیڑھ ہزار نیکیاں لکھ دیتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں سرخ یاقوت کا اتنا بڑا محل تیار کر دیتے ہیں جس کے ساٹھ ہزار دروازے ہوتے ہیں۔ اور ہر دروازے پر سونے کا ایک محل سرخ یاقوتوں کے ساتھ مزین ہوتا ہے، جب وہ رمضان کا پہلا روزہ رکھتا ہے تو اس کے موجودہ دن تک کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور ہر روز ستر ہزار فرشتے صبح کی نماز سے لے کر شام تک اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور اس کے لیے ہر سجدے کے عوض جو وہ کرے دن کو، رات کو، ایسا درخت لگتا ہے جس کے سائے میں سوار پانچ سو سال تک چلتا رہے تو بھی سایہ ختم نہیں ہوتا(ترغیب والترہیب)
لیلۃ القدر ایک ایسی شب جس کی ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے، جس کی اہمیت فرضیت و فضیلت کو قرآن مجید میں اسے بنانے والے 'رب کریم' نے خود ہمیں جتلایا کہ "تمہیں کیا معلوم شب قدر کیا چیز ہے شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے"
اس میں چھپے قیمتی جواہرات خزانے کو پانے کے لئے اللہ نے اس رات کو ہم انسانوں سے مخفی رکھا تاکہ ھم خود آخری عشرے کی طاق راتوں میں قیام کر کے اسے پانے کی تگ دو کریں، اس کو پالینا، اس رات میں عبادت کرنا، اپنے رب کو پکارنا، بخشش کی فریاد کرنا پورے ماہ رمضان کے فضائل کا خاص نچوڑ ہے، اس سے محرومی بڑی محرومی ہے اعتکاف کا مقصد اس رات کو پانا ہے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ" رسول اکرمؐ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے کہ لیلۃ القدر کو رمضان کی آخری راتوں میں تلاش کیا کرو" صحیح البخاری: باب تحری لیلۃ القدر فی الوترمن الحشرالاؤ اخر، ج(ص270)
کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ ممبر کے قریب ہو جاؤ ہم لوگ قریب قریب حاضر ہو گئے جب آپؐ نے پہلے زینے پر قدم رکھا تو فرمایا آمین خطبے سے فارغ ہونے کے بعد جب آپؐ نیچے تشریف لائے تو ہم نے اس کی وجہ معلوم کرنا چاہی تو آپؐ نے فرمایا "اس وقت جبریلؑ میرے پاس آئے تھے جب میں نے پہلے درجہ پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا اور پھر بھی اس کی مغفرت نہیں ہوئی میں نے کہا آمین "۔
ماہ رمضان سے غافل رہ جانے والوں کے لیے اس قدر سخت وعید کے جبریلؑ کی بد دعا اور سرور کونین رحمۃاللعالمینؐ کا آمین کہنا اب اس میں رحم اور معافی کی گنجائش باقی نہیں۔ اللہ رمضان المبارک کی رحمتوں، برکتوں اور مغفرتوں کا ہمیں بھی مستحق بنائےاور آخری رمضان جب بخشش کے فیصلے ہوں ہمارا نام بھی ان میں شامل ہوں آمین۔