Noor Ko Zawal Nahi
نورکو زوال نہیں
دنیا میں کچھ لوگ ایسے اذیت پسند بھی واقع ہوئے ہیں کہ ان باتوں کو لے کر اپنے آپ کو ذہنی طور پر کوڑے مارتے رہتے ہیں جن کی وقوع پذیری میں کسی طور ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ ماضی کے زخموں کو کریدتے رہنا اور سارے جہاں کا غم اپنے سینے سے لگائے پھرنا ان کی فطرت ثانیہ بن چکی ہوتی ہے۔
ایسے ہی ایک ناہنجار و گنوار طالبعلم نے اپنے ایک پروفیسر، جنہیں دانشوری میں عصر حاضر کا نابغہ روزگار کہا جائے تو غلط نہ ہو گا، سے استفسار کیا، استاد جی! یہ حضرت واصف علی واصف صاحب نے فرمایا "پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں" جبکہ ہمیں تو اس کے سن پیدائش سے لے کر آج تک عروج معدوم اور زوال سراپا نظر آتا ہے۔
یہ ملک 1947 میں آزاد ہوا اور 48ء میں 98340 مربع کلومیٹر کشمیر انڈیا کے حوالے کر بیٹھا اور پٹائی الگ سے، 65ء کے آپریشن جبر الٹرا میں مزید 8 مربع کلومیڑ رقبہ اور حاجی پیر پاس کا پورا گاؤں گنوا بیٹھا اور پٹائی الگ سے۔ جنگ ڈوگرائی میں 2640 مربع کلومیٹر پر مشتمل باٹا پور گاؤں اور ڈوگرائی دشمن کے حوالے کر دیا اور پٹائی الگ سے۔ سیالکوٹ کے محاذ پر 1920ء مربع کلومیٹر رقبہ دشمن کو گنوا دیا اور پٹائی الگ سے۔
71ء میں مشرقی پاکستان کی صورت 148460 مربع کلومیٹر رقبہ دشمن کے حوالے کرنے میں ہی آفیت جانی اور پٹائی الگ سے، 84ء میں آپریشن مغڈوت میں 1000 مربع کلومیٹر پر مشتمل سیاچین کھو دیا اور پٹائی الگ سے، 99ء میں کارگل اور بٹالیک کی صورت تقریباً 890 مربع کلومیٹر رقبہ سے ہاتھ دھو بیٹھا اور پٹائی الگ سے۔ اگر اس ساری لٹائی گئی متاع کا سرسری تخمینہ، سمجھنے کی غرض سے، ایکڑوں کی صورت لگایا جائے تو یہ تقریباً 6 کروڑ 30 لاکھ 11 ہزار 8 سو 72 ایکڑ زمین بنتی ہے۔
(255000 مربع کلومیٹر) جو دشمن ببانگ دہل چھین کے بیٹھا ہے۔ کسی غیرت مند کسان کے ایک ایکڑ پہ قبضہ ہو جائے تو اسے راتوں کو نیند نہ آئے جبکہ یہاں کے چوہدری اور چوکیدار تب سے اب تک مسلسل بانسری دھن رہے ہیں، ناقوس اور نفیریاں بجا بجا کے سمیاں مار رہیں۔ نہ انہیں کسی شکست و اہانت کا حساس نا ہی کارواں کے لٹ جانے کا کوئی غم۔
اگر کسی ملک کا اپنی مقدس سر زمین کا 2 لاکھ 55 ہزار مربع کلو میٹر رقبہ گنوا دینا بھی زوال نہیں تو پھر پروفیسر صاحب بتائیے زوال کی تعریف کیا ہے؟ چہار سو کرپشن، غربت، لاقانونیت، بددیانتی، ہر محاذ پہ پسپائی، ہر جگہ منہ پہ سیاہی، جگ ہنسائی یہ زوال نہیں تو پھر پروفیسر صاحب بتائیے زوال کی تعریف کیا ہے؟
انسانی جنگی تاریخ کی سب سے بڑی پسپائی کا ریکارڈ ہولڈر ہونا، 93000 ہزار سرنگوں، جنگی قیدی بن جانا کسی ملک کا زوال نہیں تو پھر پروفیسر صاحب بتائیے زوال کی تعریف کیا ہے؟ پروفیسر صاحب بتائیے، "پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں" تو پھر زوال کیا ہے؟
پروفیسر صاحب جو انتہائی انہماک سے اپنے موبائل کی سکرین میں غرق تھے، بار بار مخاطب کیے جانے پر بیزاری سے متوجہ ہوئے اور خشمگین نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے۔ بیوقوف طالبعلم، تم جیسے لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان 75 سالوں میں تم لوگوں کوصرف جذباتیت بیچی گئی ہے۔ تم لوگ ہر معاملہ جذباتیت کی عینک لگا کے دیکھتے ہو اور کبھی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ پاتے۔
یہ جو سرحدوں کی حدود کے حوالے سے اعداد و شمار کا جذباتی واویلا تم نے مچایا ہے نہ یہ کوئی اجنبی بات نہیں۔ ہر دور میں ایسے جنونی و قنوطی موجود رہے ہیں جن کے جذباتی واویلے، ریاست کے لئے گھمبیر مسائل کا باعث بنتے رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا معاملہ ہی دیکھ لو اتنا بڑا سانحہ نہیں تھا اتنا لنگوٹا کس واویلا بازوں نے شور مچایا، خدا کی پناہ۔ فیض صاحب کی سنیے، کہتے ہیں۔
کب نظر آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے، ختم درد عشق کے
تھی بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے، فیض جاں صدقہ کئے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
اور جالب صاحب نے تو واویلا مچانے میں تمام حدیں ہی پھلانگ دیں، کہتے ہیں
جن کو ذات کا غم ہے وہ کب جانیں گے
بے بس لوگوں پہ بندوق تانیں گے
قاتل ہیں اسباب کہ پاکستان چلا
جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا
افسردہ غزلیں، فرسودہ افسانے ہیں
حد نظر تک پھیلے ہوئے ویرانے ہیں
انہی چلن سے ہم سے جدا بنگال ہوا
پوچھ نہ اس دکھ سے جو دل کا حال ہوا
روکو یہ سیلاب، کہ پاکستان چلا
جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا
75 سال گزرنے کے بعد وہی روش آج بھی ہے۔ وہی واویلا ہے جو تم واصف صاحب کے قول کو لے لے کر آج بھی کر رہے ہو۔ جبکہ واصف صاحب نے بالکل بجا فرمایا پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں مگر تم جیسے جذباتی لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہاں نور سے مراد وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ ان کی مراد فلمسٹار نور سے ہے۔
یہ جواب سن کر طالبعلم کی آنکھوں کے ڈیلے باہر آ گئے اور یوں ساکت ہو گیا جیسے اختصار کی روح کو پا گیا ہو۔ قریب تھا کی اس کی روح پرواز کر جاتی، پروفیسر صاحب بولے میں تمہیں سمجھاتا ہوں۔ دیکھو جس طرح فلمسٹار نور کی چھ شادیاں اور پے در پے بربادیاں ہوئیں مگر اس سب کے باوجود نور کی ذہنی صحت پہ کچھ اثر نہیں پڑا۔ نجی زندگی کی ہولناک تلخیوں کے باوجود اس کی جسمانی صحت آج بھی قارون کا خزانہ معلوم ہوتی ہے۔
اس کی آنکھوں میں تیقن کی چمک اور گالوں پہ خوشحالی کی سرخی اس بات کی غماز ہے کہ اس کے ذہن و قلب میں تلخ ماضی کی کوئی پرچھائی نہیں بلکہ وہ تو اب بھی شادی و ازدواجی تعلقات کے حوالے سے مثبت سوچ رکھتی ہے اور کوئی مناسب رشتہ ملنے کی صورت میں ساتویں بار بھی قسمت آزمائی میں کوئی ہرج نہیں سمجھتی۔ نور کو زوال نہیں نور آج بھی جوان، حسین، اور فکر سے آزاد ہے اور اس کی واحد وجہ واویلا کرنے والوں کی باتوں پہ کان نا دھرنا ہے۔
یہی مثبت رویہ ریاست پاکستان کا بھی ہے ماضی میں متعدد بار لٹ پٹ جانے کے باوجود اگر مستقبل میں بھی کوئی طالع آزما 2 چار ہزار مربع کلو میٹر اور لوٹنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے تو اپنا شوق پورا کر لے ہماری ریاست کی ذہنی صحت پہ اس کا کوئی منفی اثر نہیں پڑنے والا اور نہ ہی ریاست واویلا کرنے والوں کی باتوں کو درخور اعتنا سمجھنے والی ہے۔ پاکستان فلمسٹار "نور" کی طرح ہمیشہ مثبت سوچے گا، امید سے رہے گا اور یہی مثبت رویہ ہمیشہ اپنائے رکھے گا۔ تم اپنے منفی دماغ کا علاج کرواؤ اور بابا جی نے ٹھیک کہا ہے۔
پاکستان "نور" ہے اور "نور" کو زوال نہیں۔