Istehkam e Pakistan Mustahkam Gilgit Baltistan Ki Zamanat Hai
استحکام پاکستان مستحکم گلگت بلتستان کی ضمانت ہے
پاکستان کا استحکام دراصل اس کے ہر خطے کے استحکام سے منسلک ہے۔ جس طرح ایک خاندان کے افراد ایک ہی گھر میں مل کر رہتے ہیں، کبھی لڑائی جھگڑا بھی ہو جاتا ہے، لیکن کوئی بھی فرد اپنی پریشانیوں اور مشکلات کے باوجود اپنے ہی گھر کو مسمار کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ آخرکار اس گھر سے محبت اور انسیت ہوتی ہے، وہاں سے وابستہ یادیں اور بچپن کی خوشبو ہمیں اسی گھر میں لوٹنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اسی طرح پاکستان ہمارا گھر ہے، جس میں مختلف رنگ و نسل، فرقے اور قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد مل کر رہتے ہیں۔ اس گھر میں گاہے بگاہے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں، دہشت گردی کے واقعات بھی پیش آتے ہیں، اور ریاست بعض اوقات اپنے فرائض میں کوتاہی بھی کر سکتی ہے، مگر ہمیں گھر کو گرانے کی اجازت نہیں دیتی۔
اس ملک کے اندر فرقہ وارانہ تنازعات، سیاسی اختلافات اور معاشرتی مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر کیا ان سب کا الزام ریاست پر عائد کیا جا سکتا ہے؟ فرد کی غلطیوں سے معاشرہ اتنا بگاڑ کا شکار نہیں ہوتا جتنا کہ اجتماعی غلطیوں سے ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان کے نوجوانوں کی مثال لیجیے، جنہوں نے اپنی ناکامیوں کا بوجھ ریاست پر ڈالنا اپنا معمول بنا لیا ہے۔ وہ مایوسی کی ایسی انتہا کو پہنچ چکے ہیں کہ انہیں ہر برائی کا ذمہ دار ریاست پاکستان نظر آتا ہے۔ درحقیقت، معاشرت کی تعمیر اور بہتری میں اپنا کردار ادا کیے بغیر ہم ریاست کو محض قصوروار ٹھہرانا چاہتے ہیں۔
یہ نوجوان اپنی ذاتی اور سماجی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرنے کے لیے شور و ہنگامہ اور انقلابی نعروں کا سہارا لیتے ہیں۔ ان کی ترجیحات میں عملی جدوجہد کے بجائے فوری نتائج اور شارٹ کٹ کا حصول شامل ہے۔ مذہبی طبقے نے اسلام کے تابع ہونے کے بجائے اسلام کو اپنے تابع کر لیا ہے، اور معاشرے کے اندر اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ یہاں کا نوجوان اخلاقی اور علمی انحطاط کا شکار ہے، جبکہ دنیا مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے میدان میں انقلاب برپا کر رہی ہے، ہم اپنی ہی جہالت اور فرسودہ نظریات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
ہماری نوجوان نسل اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہے۔ ہماری محفلیں علمی بحث و مباحثہ کے بجائے منفی موضوعات، سوشل میڈیا پر شہرت اور بیکار باتوں میں گزر جاتی ہیں۔ قومیں اس طرح نہیں بنتیں بلکہ قوم بننے کے لیے حقیقت پسند بننا ضروری ہے۔ مگر افسوس کہ بحیثیت قوم ہم میں حقیقت پسندی کی قلت ہے، صبر و تحمل کا فقدان ہے اور حقائق کو تسلیم کرنے کی صلاحیت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
چند مفاد پرست افراد نے ہمارے نوجوانوں کو جھوٹے نعروں کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ "پاکستان ہمیں کیا دے رہا ہے؟"، "ہمارے حقوق غصب ہو رہے ہیں" جیسے نعروں کے ذریعے انہیں گمراہ کیا جا رہا ہے۔ افسوس، کہ ان نوجوانوں کو اپنے بنیادی حقوق تک کی سمجھ نہیں اور وہ محض ان نعروں کی گونج میں اپنی توانائی ضائع کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی ان نوجوانوں کو حقیقت کی روشنی دکھائے اور اس ڈوبتی کشتی کو کنارے لگانے کا سامان کرے۔
آج گلگت بلتستان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اساتذہ کے ترجیحات میں علم و دانش کے فروغ کے بجائے ذاتی مفادات اور نئی نئی تنظیمیں بنا کر قوم کو تقسیم کرنا شامل ہوگیا ہے۔ اس صورت حال میں ہم کس سے توقع رکھیں گے کہ وہ ہمیں درست راہ دکھائے گا؟ جب تک پاکستان مستحکم نہیں ہوگا، گلگت بلتستان میں بھی استحکام نہیں آ سکے گا۔ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ پاکستان کے استحکام کے لیے بحیثیت شہری ہمارا کیا کردار ہونا چاہیے؟ یا ہم محض نعرے لگانے اور الزام تراشی میں ہی مصروف رہیں گے؟
جس طرح گھر میں کچھ ہوگا تو سبھی کو حصہ ملے گا، اسی طرح ملک مستحکم ہوگا تو اس کے تمام علاقوں کے مسائل حل ہوں گے۔ لیکن ہمیں اپنے رویے تبدیل کرنے ہوں گے، انفرادی طور پر اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ آج ہمارے نوجوان فوری نتائج کے پیچھے بھاگتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے اندر صبر اور تحمل پیدا کریں، حقائق کو سمجھیں، اور ایک ایسی قوم بنیں جو حقیقی معنوں میں استحکام کی طرف گامزن ہو۔ اگر ہم نے اسی روش کو اپنایا تو مستقبل میں ہمیں محض دوسروں کے سہارے زندگی گزارنے کی عادت پڑ جائے گی۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی سوچ کو تبدیل کریں، بیرونی ایجنڈوں کو سمجھیں، جھوٹے نظریات کو رد کریں اور اپنی سمت درست کریں۔ اللہ ہمیں فہم اور شعور عطا کرے کہ ہم اپنے ملک اور اپنے خطے کے استحکام میں عملی کردار ادا کریں اور قوم کو درست راستے پر لے آئیں۔