Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Engineer Muhammad Abrar
  4. Naqsha e Siasat Mein Israel, Iran Aur Pakistan Ki Uljhi Guthiyan

Naqsha e Siasat Mein Israel, Iran Aur Pakistan Ki Uljhi Guthiyan

نقشۂ سیاست میں اسرائیل، ایران اور پاکستان کی الجھی گتھیاں

ابراہیم معاہدے کے تحت عرب دنیا کے چند ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عمل جہاں ایک نئی سفارتی راہ کا آغاز سمجھا گیا، وہیں اس نے اسلامی دنیا کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس معاہدے کی پشت پر امریکہ کا کردار خاص طور پر قابلِ توجہ ہے اور اس کی قیادت میں مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن کسی حد تک اسرائیل کے حق میں جھک چکا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابراہیم معاہدے کو "عظیم سفارتی فتح" قرار دیا تھا، لیکن درحقیقت یہ معاہدہ ایک گہری چال کا حصہ معلوم ہوتا ہے، جس کا مقصد مشرق وسطیٰ میں مزاحمتی قوتوں کو کمزور کرنا ہے۔ اسرائیل کو درپیش خطرات کی فہرست میں ایران سرفہرست ہے اور اس کے بعد بالواسطہ طور پر پاکستان بھی نشانے پر ہے۔ ایران کی جوہری پیش رفت، فلسطین کی غیر مشروط حمایت اور مزاحمتی گروہوں سے قربت، اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں کو ایک عرصے سے کھٹک رہی ہے۔

اسرائیلی انٹیلی جنس اور دفاعی ادارے کئی بار ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں ایران کے مختلف شہروں میں ہونے والے پرسرار دھماکے، سائبر حملے اور اہم سائنسدانوں کی ہلاکتیں اسی تسلسل کی کڑیاں ہیں۔ اسرائیلی حکام کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ایران کی کمزوری خطے میں "امن" کا راستہ ہموار کرے گی، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ایران کو غیر مستحکم کرنے کی ہر کوشش خطے کو مزید انتشار کی طرف دھکیل رہی ہے۔

کیا پاکستان اگلا حدف ہے؟ یہ سوال اب ایک قیاس نہیں رہا، بلکہ اس پر مختلف عالمی تھنک ٹینکس میں سنجیدہ بحث جاری ہے۔ پاکستان کی جوہری صلاحیت، اسرائیل کے حوالے سے غیرلچکدار پالیسی اور فلسطینیوں سے اصولی یکجہتی۔ یہ سب وہ عوامل ہیں جو اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے لیے مستقل تشویش کا باعث ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر ایران کو کسی بھی طور دباؤ میں لا کر کمزور کیا گیا، تو اگلا دباؤ پاکستان پر آئے گا چاہے وہ معاشی ہو، سفارتی ہو یا اندرونی خلفشار کی شکل میں۔

پاکستانی حکومت کے حالیہ بیانات اس حساس مسئلے پر واضح ہیں۔ وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ نے چند ہفتے قبل ایک پریس کانفرنس میں کہا: اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال بلامشروط قومی مشاورت کا متقاضی ہے۔ موجودہ حالات میں اس کا کوئی امکان نہیں۔ ان کا یہ بیان ریاستی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے، جو اب تک قائداعظم محمد علی جناح کی اس تاریخی بصیرت پر قائم ہے کہ: "فلسطین پر یہودیوں کا بزور قبضہ ظلم ہے اور ہم اس کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں"۔

قائداعظم نے اسرائیل کے حوالے سے جو مؤقف 1947 میں اختیار کیا تھا، وہ آج بھی پاکستان کے نظریاتی خدوخال کی بنیاد ہے۔ ان کے نزدیک فلسطین صرف عربوں کا وطن ہے اور صیہونی قبضہ نوآبادیاتی جارحیت کے مترادف ہے۔ یہی مؤقف آج پاکستانی عوام کے جذبات میں رچا بسا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کسی کوشش کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ پاکستان کے لیے یہ ایک نازک وقت ہے۔ ایک طرف اسرائیل اور بھارت کے گٹھ جوڑ کے سائے گہرے ہو رہے ہیں، تو دوسری جانب ایران میں ممکنہ تبدیلیوں کے بعد پاکستان اگلے فوجی سفارتی دباؤ کا ہدف بن سکتا ہے۔

ایسی صورت میں پاکستان کو چند اہم نکات پر غور کرنا ہوگا 1۔ اپنے جوہری اثاثوں کا تحفظ سفارتی ترجیحات میں اولین ہونا چاہیے 2۔ مشرق وسطیٰ میں نئے اتحادوں کو بغور دیکھنا اور ان کے اثرات کا تجزیہ کرنا ناگزیر ہے 3۔ ترکی، چین، روس اور ملائیشیا جیسے نظریاتی ہم خیال ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید وسعت دینا وقت کی اہم ضرورت ہے 4۔ قومی سطح پر اتحاد و یکجہتی کو فروغ دے کر اندرونی خلفشار سے بچنا ہوگا، تاکہ کوئی بیرونی قوت پاکستان کے داخلی معاملات کو کمزوری میں نہ بدل سکے۔

ابراہیم معاہدے کی چمک دمک، ایران میں افراتفری اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بڑھتی ہوئی سرگوشیاں ان سب کے بیچ پاکستان کو اپنا راستہ واضح رکھنا ہے۔ نہ صرف قومی مفادات کو دیکھنا ہے بلکہ تاریخی ذمہ داری، امت کی امیدوں اور اصولی مؤقف کو بھی نبھانا ہے۔ قائداعظم کے الفاظ آج پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ وقت ہے کہ ہم ان کی روشنی میں اپنے فیصلے کریں اور وہ روشنی یہی کہتی ہے: ہم ظلم کے ساتھ نہیں کھڑے ہو سکتے، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood