Tarbooz Kahani
تربوز کہانی
گرمیوں کی لمبی دوپہریں اور سانس خشک کرتی لو کے تھپیڑے ہوں۔ سورج کے الاؤ میں جھلستے شجر ہوں۔ روزے کی کیفیت اور خشک پپڑی زدہ ہونٹوں کا مالک سرمئی آسمان سے نظر جھکائے تو خشک پیاسی زمین کی تڑختی لکیروں میں الجھ جائے ایسے میں اس کے سامنے محبوب مجسم یا تربوز مجسم کا چناؤ رکھ دیا جائے تو پہلی غیر ارادی انگلی تربوز کی طرف اٹھے گی۔
جان ہے تو جہان ہے کہ مصداق تربوز کی سرخ سرد شیریں پھانک کے لب لعلیں کا بوسہ روزہ دار محبوب کے پپڑی زدہ ہونٹوں سے کہیں دل نشیں محسوس ہوتا ہے۔ لب لعلیں سے آب حیات کشید کرنے کے بعد روٹھے محبوب کو بھی منایا جا سکتا ہے ورنہ رمضان کریم میں تو تم روٹھے ہم چھوٹے کے مصداق محبوب سے دوری بھلی معلوم پڑتی ہے۔
دن بھر کی پیاس کے بعد ٹھنڈے پانی کے جام پر جام لنڈھاتے ہوئے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ "راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کی سوا" پانی سے پیٹ غبارہ بن جائے لیکن پیاس نہ بجھے تو آزمودہ نسخہ پلیٹ بھر تربوز کھانا ہے۔ تربوز جام شیریں ہے، تربوز روح افزا ہے، تربوز راحت جاں آبِ حیات ہے۔ بھوک رہے گی نہ پیاس، آزمائش شرط ہے۔ ہاں شرط سے یاد آیا کہ تربوز خریدتے وقت شرطیہ میٹھے پر اصرار کیجیے۔
دکاندار ندی کے بہتے پانی میں جمائی چارپائی پر بیٹھے بیٹھے، پانی میں ڈالے پیروں کے عین درمیان سے ایک تازہ بہ تازہ دھلا دھلایا چمکدار لشکارے مارتا "ہریالے بنے" جیسا چھیل چھبیلا تربوز برآمد کرے گا۔ یہ تربوز دکاندار کی چارپائی کے چار پائیوں سے بندھے، نہر میں ڈوبے جال سے برآمد ہو گا جس میں اس کے ان گنت ہم جنس دوست احباب ٹھنڈے پانی میں غوطے، قلابازیاں اور دھینگا مشتی میں مصروف عمل ہوں گے۔
دکاندار فوراََ سے پیشتر چارپائی کی الگن میں اٹکی ایک دیسی فولادی لمبی سی چھری کھینچے گا جس کی نوک کثرت استعمال سے گولائی میں تبدیل ہو چکی ہو گی۔ بہتی ندی کے گدلے پانی سے مل مل کر دھوئے گا۔ کھچ کی آواز کے ساتھ تربوز کے سینے میں دستے تک یہ چھری ترازو کر دی جائے گی۔ ہریالے بنے کے سینے پر گہرے گھاؤ سے سرخی جھلکتی نظر پڑے گی۔ ایک تاسف اور خوشی کا ملا جلا سا ردعمل آپ کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
کاش یہ پہلا وار کرنے والا میں ہوتا۔ سبزے کے دروں چھپی سرخی کا اعلان میرے ذریعے ہوتا۔ کسی بھی تقریب کی افتتاحی ربن کٹنگ سیریمنی کا لطف تم کیا جانو دوست۔ انسانی فطرت ہے کہ "ان چھوئے" کو پہلا اور واحد لمس وہ عطا کرے اس ملکیتی احساس میں شراکت برداشت کرنا تاسف انگیز تجربہ ہے۔ دل اس عجیب سے تاسف کو دکاندار کی چھری پر لگے زنگ اور چارپائی کے بان اور ندی کے گدلے پانی میں بہتے بیکٹیریا کی طرف مبذول کروائے گا۔
اور آپ تربوز کٹنگ سیریمنی اپنے ہاتھوں سر انجام نہ پانے کے لاشعوری تاسف کو ہونہہ پھل کو جراثیم زدہ کر دیا کہ کر جھٹلانا چاہیں گے۔ جتنی دیر میں یہ شعوری اور لاشعوری کشمکش آپ کے قلب و ذہن کو آزردہ کرے گی اتنی دیر میں دکاندار تربوز میں تین رخ ٹک لگا کر تربوز میں سے تکونی پھانک بالمعروف ٹکی باہر نکال، آپ کی آنکھوں کے سامنے معائنے کے لیے پیش کر دے گا اور ہم سب اپنے تجربے سے جانتے ہیں کہ اس کشمکش اور ٹکی لگنے کا دورانیہ محض پل دو پل کا ہوتا ہے لیکن بس قیامت سی گزر جاتی ہے۔
سنگ سرخ سے بنے اہرام مصر کا ایک ننھا سا ماڈل جس کی بنیاد سبز سنگِ مرمر سے تراشی گئی ہو یعنی کہ ٹکی جس کی گیلی چمک بصارت کو تراوٹ بخش محسوس ہو گی اور اس پہلی نظر کا اعجاز ہوتا ہے کہ گاہک اپنی کلفت بھول جاتا ہے۔ تربوز کھانے کے پچھلے تجربے کی لذت یاد کرتے، روزہ بہلاتے گھر پہنچتے ہی تربوز کو غسل کروا کر ڈیپ فریزر کی پنہائی میں رکھ دیا جاتا ہے۔ بس کب افطار کا بگل بجے اور فوجیں تربوز کا تیا پانچہ کریں۔
افطار سے کچھ وقت پہلے آپ یعنی صاحب خانہ یا سرکار خانہ اس فیملی فروٹ پر اپنی نشتر زنی میں کمال کے جوہر دکھائیں گے۔ جی جناب تربوز کے مخفی حسن کو آپ کا تیز دھار نشتر کرسٹل شیپ سرخ سرخ پھانکوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔ سیاہ بیج تس پر مینا کاری کا نمونہ معلوم پڑتے ہیں۔ بصارتِ قلب و روح کو تراوٹ دیتا یہ حسین نظارہ آپ کی نشتر زنی کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ زمرد رنگ تربوز کے نہاں خانے میں پوشیدہ یاقوت رنگ جمال کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کمال رکھتے ہیں۔
یہاں یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ تربوز کا دل کسی بھی آلودگی سے پاک، کسی سیاہ دھبے المعروف بیج سے آلودہ نہیں ہوتا شاید تربوز عالم شباب میں واردات عشق گزرنے سے پہلے ہی اس جہان فانی کو الوداع کہہ دیتا ہے اسی لیے اتنے مصفا کنوارے دل کا مالک ہوتا ہے۔ یہی تربوز اگر قدردان کے انتظار میں اپنی مختصر حیات کے طویل تپتے دن دکاندار کے تختے پر گزار دے اس کا ظاہر جیسا بھی دکھے اس کا باطن شکن آلود ہو جاتا ہے۔ مندرجہ بالا جملہ یاقوت سے ترشی پھانکوں کو زیر دنداں کچلتے ہوئے سرزد ہوا۔
گویا لکھنے میں حس ذائقہ کا ان پٹ بھی شامل تھا۔ سو قلم کی دھار نے اپنا رخ خود طے کیا۔ کہتے ہیں قلم کی دھار اگر اپنا رخ خود طے کرے تو شہ پارہ وجود میں آ جایا کرتا ہے لیکن اگر لکھاری قسمت سے سرجن بھی ہو تو موہوم سہی لیکن امکان تو ہے کہ کبھی ہاتھ میں تھامے نشتر کو قلم سمجھ بیٹھے اور ٹیبل پر لیٹے وجود کو قرطاس، شہہ پارہ تخلیق کرنے کی جھونک میں قلم کے نشتر کی دھار اپنا رخ اپنی مرضی سے تبدیل کر لے تو بندہ وجود سے عدم کا ٹکٹ بھی کٹا سکتا ہے اس لیے قلم کا نشتر اور نوکِ نشتر زرا سہج سنبھل کر چلے تو ہی بہتر۔
اس مقام پر یہ ہدایت بر موقع محسوس ہوتی ہے کہ تھیٹر میں داخل ہوتے سمے سرجن اپنے ہمزاد لکھاری کو دنیاوی جوتے کی مانند تھیٹر سے باہر چھوڑ دے اور درویشانہ کھڑاوں المعروف سرجیکل تھیٹر چپل پہن لیں۔ گویا رنگین لباس اتار کر "جوگی ہی بن جائیں تیرے" گویا دنیاوی ناطے توڑ کر قبر میں داخل ہوتے مردے کی مانند اپنے سیکھے پڑھے کا سچا سیدھا حساب دینے کی تیاری رکھے۔ پس
قلم، قرطاس، لکھاری آوٹ۔
نشتر، مریض، سرجن ان۔
قلم کی نشتر سے مناسبت اور عدم مطابقت نے ڈرا کے رکھ دیا بس یوں لگا کہ گویا دوران جراحی نشتر پھسل ہی تو گیا ہو۔ ایک آن ٹیبل ایمرجنسی کا کامل منظر آنکھوں کے سامنے نمودار ہوا۔ اس بالکل حقیقی تصور نے ریڑھ کی ہڈی میں کپکپی دوڑا دی۔ جراح اور مریض ہر دو پر اللہ کریم اپنا کرم خاص رکھے۔ لکھاری سرجن کو اتنی قابلیت عطا فرمائے کہ وہ مریض قرطاس اور تربوز کو ان کے حقیقی مقام پر رکھ کر نوک نشتر و نوک قلم کا بہترین استعمال کر سکے۔ آمین۔