Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Rabia Khurram
  4. Hamare Bache Hamara Mustaqbil

Hamare Bache Hamara Mustaqbil

ہمارے بچے ہمارا مستقبل

کل میرے ننھے منے بھتیجے کا اسکول کا پہلا دن تھا۔ بھائی سے بات ہوئی تو وہ بیٹے کی نظر ٹیسٹ کروا رہے تھے۔ مجھے یوں لگا کہ یہ سکول ایڈمیشن کی ریکوائرمنٹ ہے۔ بہت اچھا لگا لیکن بھائی نے بتایا کہ وہ اپنے طور پر یہ اہتمام کر رہے ہیں۔ یہیں سے یہ آئیڈیا آیا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ ہر سکول اپنے نئے ایڈمشنز کے لیے عمومی صحت کا سرٹیفکیٹ بھی لیا کریں خصوصاََ نظر کا سرٹیفکیٹ۔

ہر نئے سال کے آغاز پر اسکول کی طرف سے والدین پر پابندی عائد کر دی جائے کہ اپنے بچوں کی نظر ٹیسٹ کروائیں۔ یہ بہت اگنور کیا جانے والا نکتہ ہے۔ بچے آنکھیں سکیڑ کے بلیک بورڈ دیکھتے ہیں یا سبق سمجھ نہیں پاتے۔ اچھا لکھ نہیں سکتے نتیجتاََ کلاس میں نکمے یا لاپرواہ کہلاتے ہیں۔ سر درد کی شکایت کریں تو والدین سکول نہ جانے کا بہانہ سمجھتے ہیں اور اساتذہ ہوم ورک نہ کرنے کا بہانہ۔ بچے کی صحت پر توجہ کوئی کم ہی دیتا ہے۔

یہ انتظام ہر نئے سال کے پہلے دن یا پہلے ہفتے میں اسکول کی طرف سے میڈیکل اینڈ آئی کیمپ کا اہتمام کر کے بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ کیمپ ڈاکٹر صاحب اپنی مشہوری کی خاطر مفت بھی کر سکتے ہیں اور بہت ضروری ہو تو تمام والدین سے معمولی رقم فیس کے نام پر بھی لی جا سکتی ہے جو اکٹھی کر کے ڈاکٹر صاحب کی فیس اور آئی کیمپ کے اخراجات کی مد میں استعمال کی جا سکتی ہے۔

ایسا ہی کیمپ دانتوں کی صحت کے لیے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ بچوں کی عمر کے حساب سے بچے اور بچیوں کی بلوغت کی عمر مثلاََ چھٹی، ساتویں یا آٹھویں اور بڑی جماعتوں کے بچوں کے لیے گائناکالوجی، اینڈرالوجی کیمپ کا اجراء بھی کیا جا سکتا ہے۔ تاکہ بچوں کو اپنے ذاتی مسائل اور الجھنوں کے حوالے سے بات کرنے کے لیے کوئی پروفیشنل گائیڈ لائن دینے والا میسر ہو۔

ایک لینگویج انسٹرکٹر بچوں میں ہکلاہٹ یا تھتھلاہٹ جیسے مسائل کے حل کے لیے بھی آن کال ارینج کیا جا سکتا ہے جسے حسب ضرورت مدد کے لیے بلایا جا سکے۔ بالکل ابتدائی کلاسز کے داخلہ فارمز میں ابتدائی لازمی ویکسینیشن کے مکمل ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی لف کیا جانا ضروری ہو۔ اسی طرح ہر بچے کا ہر نئے سال میں داخلے پر کمپلیٹ بلڈ کاؤنٹ کروا لیا جائے تاکہ انفیکشن اور خون کی کمی کا پتا چلایا جا سکے اور بروقت اس کا سدباب ہو سکے۔ انفیکشن ہو یا اینیمیا تعلیم اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بچے کی عدم دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں۔

آٹھویں جماعت سے ہی بچوں کے کیرئیر ڈیویلوپمنٹ کے حوالے سے بھی گائیڈ لائن دینے کے لیے کیرئیر کنسلٹیشن ارینج کی جانا چاہیے۔ جہاں بچوں کی ذہنی استعداد، شوق اور خاندانی پا منظر کا اندازہ لگا کر ان کے لیے مناسب ترین دو چار آپشنز سجیسٹ کی جا سکیں۔ یہی کیرئیر کنسلٹیشن نویں اور دسویں بورڈ امتحانات کے بعد میں ارینج کی جائے۔ یہی سلسلہ کالج کی تعلیم کے دوران بھی جاری رکھا جائے۔

پروفیشنل کالج، یونیورسٹی میں پہنچنے والے بچے یوں تو اپنی ترجیحات کے حوالے سے واضح ہوتے ہیں لیکن ان میں سے چند ایک تاحال کسی واضح میدان کے انتخاب میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں، کیرئیر کاؤنسلر اور سائیکالوجسٹ کا کردار یہاں بھی بے حد اہم ہے۔ اسکول کے تمام دورانیہ میں ہر چھ ماہ بعد یا اگر اسکول افورڈ کر سکے تو مستقل طور پر ایک چائلڈ سائیکالوجسٹ، سائیکیاٹرسٹ ارینج کیا جائے تاکہ دوران تعلیم بچے میں در آنے والی ذہنی تبدیلیوں پر نگاہ رکھیں جا سکے۔

بچے کا اسکول استاد ہم جماعت و دوست اور گھر محلے کی سطح پر ہونے والے کسی بھی ذہنی ٹراما پر نہ صرف نظر رکھی جائے بلکہ ضرورت پڑنے پر بچے کی بہتری کے لیے ایکٹو رول بھی ادا کیا جائے۔ اسی سلسلے میں ضمنی طور پر یہ بھی کہتی چلوں کہ بچے جس استاد کے حوالے کیے جائیں ان اساتذہ کی تقرری کرتے وقت ان کی ذہنی استعداد اور رویے کا اندازہ کیا جانا بھی ازبس ضروری ہے۔ لا پرواہ استاد بچے کی تعلیم پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے گا۔

سخت مزاج استاد سے بچہ خوفزدہ رہے گا اور بچے کی حوصلہ شکنی کرنے والا استاد بچے کی سیلف اسٹیم کا کباڑا کر سکتا ہے۔ معلم بنتا نہیں ہے بلکہ پیدا ہوتا ہے۔ سو ہر تعلیم یافتہ شخص اچھا استاد بھی ہو یہ ضروری نہیں۔ استاد کے مرتبے پر فائز کرنے کے لیے شخصیت کا انتخاب کریں جانچ پڑتال کے بعد ہی کیا جانا چاہیے۔ ٹیچر کی پوسٹ پر کام کرنے والی ہر ہستی "معلم" بھی ہو یہ بالکل ضروری نہیں۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari