Zarf
ظرف

حضرت علیؑ کا قول ہے کہ اگر کسی انسان کو پرکھنا ہو تو اس کو عزت دے کر دیکھو اگر تو وہ بدلے میں آپ کو بھی عزت دے تو اس انسان سے دوستی کر لو اور اگر وہ انسان اس عزت کو اپنا استحقاق سمجھے تو اس شخص سے دور ہو جاؤ۔
اسی طرح کہتے ہیں کہ کسی انسان کو جانچنے کے لئے اس کے ساتھ سفر کیا جائے یا اس کے ساتھ بیٹھ کے کھانا کھایا جائے۔ دونوں صورتوں میں اس انسان کی شخصیت کھل کے سامنے آ جائے گی۔ فی زمانہ ہمیں قدم قدم پر انسان کی کم ظرفی اور اعلیٰ ظرفی سے پالا پڑتا ہے۔ پرانے خاندانی لوگ اعلیٰ روایات اور عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان روایات کا مظاہرہ ابھی بھی دیہات کی سطح پر دیکھنے کو مل جاتا ہے۔
لیکن شہری زندگی میں اب یہ عالی ظرفی کم کم ہی نظر آتی ہے۔ پیسے کی دوڑ، نفسا نفسی، دوسرےکو نیچا دیکھانا، حسد، رقابت، جلد بازی، عدم برداشت، ان سب عوامل نے انسان کو کم ظرفی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ بقول ایک بزرگ محترم کالم نگار جو عمران خان سے ذاتی دوستی کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ کہ "اس میں انسان کو پرکھنے کی صلاحیت نہیں ہے" اس کا عملی ثبوت قومی اسمبلی کی عدم اعتماد سے پہلے ایک گروپ کا پی ٹی آئی سے الگ ہو جانا۔
اور ان لوگوں نے جس طرح ڈھٹائی کے ساتھ اپنی کم ظرفی دکھائی شائد ہی نظر آتی ہے۔ اسی طرح صوبائی سطح پر بھی ایک ایسے ہی گروپ نے پیٹھ پیچھے چھرا گھونپا۔ دکھ اس بات پر نہیں کہ انہوں نے پارٹی سے بغاوت کی دکھ اس بات کا ہے جو کم ظرفی انہوں نے میڈیا ٹاک میں آ کر دکھائی۔ ایک ایسا شخص جو سایہ کی طرح عمران خان کے ساتھ رہتا تھا، کیسے ٹاک شو میں اپنی کم ظرفی دکھا رہا تھا؟
آپ کے اختلاف لاکھ پارٹی سے، پارٹی کے چئیرمین کے ساتھ ہوں پر اس طرح کھلم کھلا دوسروں کے اکسانے پر آپ کم ظرفی دکھائیں۔ مانا آپ سے زیادتی ہوئی آپ سے سرف نظر کیا گیا پر آپ کو گریس دکھانی چاہئے تھی۔ خاموش رہتے لوگ آپ کی تعریفیں کرتے پر جس طرح آپ نے کیا، لوگوں کی نظروں میں آپ کی عزت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ رہتی سہتی کسر عدلیہ کے فیصلے نے پوری کر دی ہے۔ الیکشن کی آمد آمد ہے عوام ہی فیصلہ کرے گی کہ وہ آپ کو کس نظر سے دیکھتی ہے؟
عالی ظرفی تو یہی تھی کہ آپ نے جو بھی نوازشات کی تھی اس کا صلہ نہ مانگتے۔ ویسے بھی کسی سے نیکی کرو تو اس سے امید نہ پالو۔ عالی ظرفی کی مثال رانا نثار صاحب کی دی جا سکتی ہے کہ کیسے اب تک انہوں نے وضح داری نبھائی ہے۔ دوسری مثال اللہ ان کی قبر کو تا حد نگاہ روشن کرے، کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب مرحوم کی ہے۔
اشرافیہ مقتدر حلقوں اور عوام نے بھی بالعموم ان کو مایوس کیا پر انہوں نے آخری دم تک رواداری اور عالی ظرفی کا مظاہرہ کیا۔ کہتے کیکر کے درخت کو جتنا مرضی گڑ کا پانی ڈالتے رہیں اس پر انگور نہیں لگ سکتے انسانوں کی فطرت بھی ایسی ہی ہوتی ہے۔ ایک طرح سے عمران خان کے لئے اچھا ہو گیا کہ اپنوں اور غیروں کی پہچان ہو گئی۔ اصل امتحان اب شروع ہو گا۔
ان کی عادت کو دیکھتے ہوئے بظاہر یہی لگتا ہے کہ امیدواروں کے چناؤ میں غلطیاں کریں گے۔ پر کہتے ہیں مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا اب عمران صاحب مومن ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔ ایک محاورہ پڑھتے تھے "سورج کو چراغ دکھانا" اس کی سمجھ اس گروپ کے الگ ہونے سے سمجھ آئی اور اس بات پر بھی مہر ثبت ہوئی کہ دریا، ندی، نالے ہی سمندر میں جاتے ہیں سمندر سےکبھی ندی نالے نہیں نکلتے۔

