Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Zard Sahafat

Zard Sahafat

زرد صحافت

ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے کالی بھیڑیں جو ہر ادارے میں موجود ہیں۔ ہماری صحافتی برادری میں بھی کچھ ایسے عناصر موجودجو جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے میں ید طولی ہیں۔ اور اوپر سے الیکٹرونک میڈیا ریٹنگ کے چکر میں اچھے اچھوں کی پگڑیاچھال دیتا ہے۔ مستزاد یہ کہ تحقیق سے اگر خبر غلط ثابت ہو تو اس کا ازالہ سرے سے نہیں ہوتا۔ ہو بھی تو ایک سنگل کالمی سرخی سے کام چلا لیا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمارے تفتیشی نظام کی خامی قانون میں سقم ہے کہ الزام لگتے ہی گرفتاری عمل میں ڈال دی جاتی ہے۔ اور تفتیش بعد میں ہوتی ہے۔ جس پر الزام اس کی فوٹو پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی زینت بنا دی جاتی ہے۔ اب بے گناہ بندے کو اس طرح سے تذلیل کرنا کیا ایک صیح عمل ہے۔ کسی بے گناہ بندے کو اس طرح گرفتار کروانا اس کی جھوٹی خبر دینا میڈیا پر چلانا سب زرد صحافت کے زمرے میں آتے ہیں۔

شریف بندہ ساری زندگی اپنی فیملی اور اپنے قریبی لوگوں کوصفائیاں پیش کرتا رہتا ہے۔ حالیہ فیصل آباد کی ایک مارکیٹ سے عورتوں کی بے حرمتی کی ویڈیو وائرل ہوئی اور الیکٹرونک میڈیانے عورتوں کو مظلوم بنا کر پیش کیا۔ اور صرف عورتوں کا ہی موقف پیش کیا گیا۔ جبکہ دکانداروں سے بھی ان کا موقف لیناچاہئے تھا تا کہ پکچر واضح ہو جاتی۔ دفاع کا حق قانون دیتا ہے۔ اگر وہ عورتیں چوری کی نیت سے آئیں اور اس نے اپنی دکان کو بند کرکے ان کو روکنا چاہا جیسا کے ویڈیو میں نظر بھی آرہا ہے کہ وہ دکان میں اکیلا موجود ہے اس کےپاس اس کے علاوہ فوری کوئیآپشن نہیں کہ وہ ان کو کیسے روکے۔

اس نے دکان میں ان کو بند کرنا چاہا۔ آگے پھر جس طرح اس خبر کو ان عورتوں کے حق میں چلایا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ صحیح ہے کہ عورت پر ہاتھ اٹھانا اس کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ پر عمل اور رد عمل اور دونوں طرف کا موقف پیش کرنا بھی صحافتی ذمہ داری میں شامل خود ہی مدعی خود ہی منصف والا معا ملہ نہیں ہوناچاہئے۔ جان بوجھ کہ حقا ئق کو مسخ نہیں کرنا چاہئے۔

مارکیٹس میں ایسے عورتوں کے گروپ آتے رہتے ہیں جو ایسے آنا فانا آ کر دکان میں داخل ہوتی ہیں اور پانی کا بہانہ کر یا کسی اوربہانے سے مختلف جگہ میں پھیل کر دکاندار کی توجہ تقسیم کر کے جو چیز ہاتھ لگے اٹھا کر لے جاتی ہیں۔ اور ایسا آئے دن کہیں نہ کہیں کسی بازار میں ایسی کاروئیاں ہوتی رہتی ہیں۔ اور یہ پورا مافیا ہوتا ہے۔ اب جو دوسری ویڈیو وائرل ہوئی ہے اس میں عورت خود سے اپنی عزت کو تار تار کر تی دیکھی جا سکتی ہے۔

جرم کوئی بھی کرے اس میں تخصیص نہیں ہونی چاہئے۔ ظلم عورت یا مرد پرہو ایک نظر سے دیکھا جانا چاہئے۔ بطور صحافی ہمیں صاف اور سچی حقیقت پر مبنی رپورٹنگ کرنی چاہئے۔ حق اور سچ کا ساتھ دیناچاہئے۔ دونوں طرف کا نقطہ نظر دینا چاہئے۔ ملزم مجرم کا فیصلہ تفتیشی اداروں اور عدالتوں پر چھوڑ دینا چاہئے۔ بلا وجہ کسیغریب شریف کی پگڈی نہیں اچھالنی چاہئے نہیں تو وہ بے چارہ جیتے جی مر جاتا ہے۔

Check Also

Zarkhez Zameen Ke Zarkhez Log

By Muhammad Saqib