Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Welay Di Namaz, Kawely Diyan Takran

Welay Di Namaz, Kawely Diyan Takran

ویلے دی نماز، کویلے دیاں ٹکراں

وقت کا ضیاع ہمارے معاشرے میں چنداں اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ وقت کی پابندی کی اہمیت ہمارے شاید جینز میں ہی موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ کہ ہمیں روزانہ ایسے ڈائیلاگ سننے کو ملتے ہیں۔ بسیار دو منٹ رکو میں ابھی آیا۔ عموماََ ہم لوگ اس کو گھنٹوں کے معنی میں لیتے ہیں۔ کبھی غور کیا کہ جو قومیں ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں۔ ان کے ہاں وقت کی کیا قدر و منزلت ہے۔ کہتے وقت کی پابندی میں جاپان کے لوگ پیش پیش ہیں۔ ان کی ریلوے ٹرینز کی ٹائمنگ اتنی اچھی کہ آپ اپنی گھڑی کا ٹائم ایڈجسٹ کر سکتے ہیں۔

ایک ہمارے ہاں ریلوے موجود ٹائم کی بندش سے آزاد ادارہ۔ ہماری اور بہت سی خامیوں میں ایک یہ خامی کہ ہم اپنی نسل میں ڈسپلن اور وقت کی قدر کو اسکول کی سطح پر ان کی ذہن سازی نہیں کر پائے ہیں۔ حالانکہ ہمارا دین ہمیں پانچ وقت کی نماز مقررہ وقت پر ادا کرنے کا پابند کرتا ہے۔ اس کی اصل روح بھی یہی ہے کہ ہم وقت کی قدر کریں۔ کہتے ہیں کہ وقت اور سمجھ اکٹھے خوش قسمت لوگوں کو ملتے ہیں، اکثر وقت پر سمجھ نہیں ہوتی جب سمجھ آنے لگتی تب وقت نہیں رہتا۔

وقت کی اہمیت سمجھانے کے لئے اکثر یہ جملہ بھی کوٹ کیا جاتا کہ وقت ایک تلوار کی مانند ہے، اگر تم اس کو نہیں کاٹو گے تو یہ تمھیں کاٹ دے گا۔

ایک موقع پر نپولین بونا پارٹ نے یہ تاریخی جملہ بولا تھا کہ میں جنگ ہار سکتا ہوں مگر وقت ضائع نہیں کر سکتا۔

ہمارے ہاں باوا ہی نرالا ہے۔ شادی کے کارڈ پر دئیے گئے وقت پر میزبان نہیں پہنچے ہوتے کجا کہ مہمان وارد ہوں۔ اگر کوئی مہمان وقت کی پابندی کا خیال کر لے تو اس کو یوں شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے جیسے اس سے کوئی بہت بڑی خطا سر زد ہوگئی ہو۔ ہم وہ قوم ہیں جو پھاٹک بند ہو تو کندھوں پر سائیکل رکھ کے پھاٹک کراس کر لیں گے۔ جیسے پتہ نہیں کتنی ایمرجنسی ہے۔ لیکن تھوڑی دور جا کر ہم فٹ پاتھ پر دوائیاں بیچنے والے کے پاس بڑے اشتیاق سے کھڑے ہوتے ہیں۔ دنیا و مافیا سے بےخبر تب بےشک ہماری جیب ہی کیوں نہ کٹ جائے۔ ہم ایسی ہی بے فکری قوم ہیں۔

سیانے کہتے ہیں کہ وقت پر لگائی گئی ایک گرہ، آنے والے وقت میں سو گرہوں سے نجات دلاتی ہے۔

ہمیں انفرادی طور پر خود سے اس بات کا عہد کرنا چاہئے کہ حتی الامکان وقت کی پابندی اور وعدےکے پاسداری کریں۔

یہ تحریر لکھنے کا خیال مجھے اس طرح آیا کہ ایک بار ایک کرکٹ انتظامیہ نے فائنل میچ کے لئے اس ناچیز کو بطور مہمان خصوصی دعوت نامہ دیا۔ ٹائم اور تاریخ بتا دی گئی۔ ساتھ وقت کی پابندی کرنے کا بھی بول دیا گیا۔ کیونکہ فائنل تھا۔ میچ شروع کرنے سے پہلے مہمان خصوصی کا دونوں ٹیموں کا تعارف کروانا مقصود تھا۔ بندہ ہمراہ اپنے دوست کے عین وقت پر پہنچ گیا۔ پر وہاں جا کر علم ہوا کہ ابھی تو انتظامیہ کے لوگ بھی نہیں آئے۔

منتظمین نے ہمیں ایک جگہ بٹھایا تاوقتیہ کہ دونوں ٹیمیں گراؤنڈ میں پہنچی۔ تب موبائل ہماری زندگی میں نہیں آئے تھے۔ اب بھی جب اس واقعہ کو سوچتا ہوں تو عجیب سی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ عموماََ دیکھا یہی گیا ہے کہ جتنا زیادہ وی وی آئی پی ہوگا، سب سے آخر میں آئے گا۔ چاہے وہ کسی مشاعرے کی صدارت ہی کیوں نہ ہو کبھی اپنے وقت پر شروع نہیں ہوتی۔ کسی کتاب کی تقریب رونمائی ہو یا کوئی بھی تقریب ہم وقت کی پابندی کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے۔ ہمارے سیاسی لیڈر ہمارے لئے رول ماڈل ہیں۔ وقت کی پابندی اگر یہ لوگ کریں تو نچلی سطح پر بھی اس کا اچھا اثر آئے گا۔

یاد رکھیں، گھڑیوں کی سوئیوں کی رفتار جس تیزی سے گزر رہی ہیں اور منٹوں، سیکنڈوں میں تقسیم ہوتی یہ زندگی ایک دن فنا ہو جائے گی۔ اس لئے عقل مندی کا تقاضا ہے کہ ہم وقت کی پابندی کریں۔ ایک ایک ساعت کی قدر کریں تاکہ ہماری دین و دنیا بہتر ہو سکے۔

پنجابی محاورہ ہے کہ ویلے دی نماز، کویلے دیاں ٹکراں۔

وقت کی پا بندی ہی قوموں کو عروج بخشتی ہے۔

ہمیں خود کو بدلنا ہوگا، کل سے نہیں ابھی سے۔

آپ کا کیا خیال ہے؟

Check Also

Israr Ul Haq Majaz Se Majaz Lakhnavi Tak Ka Safar

By Rehmat Aziz Khan