Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Traffic Qawaneen Aur Zulm Ki Inteha

Traffic Qawaneen Aur Zulm Ki Inteha

ٹریفک قوانین اور ظلم کی انتہا

ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ قانون کی پاسداری کا نہ ہونا ہے۔ یہ نوبت ایک دن میں نہیں آئی ہے۔ بگاڑ تب سے شروع ہوا جب ٹاپ لیول حکمرانوں، قانون کے رکھوالوں نے ملک کے قوانین کے ساتھ کھلواڑ کرنا شروع کیا۔ خود کو ماوراء آئین سمجھنا شروع کیا۔ میرٹ کس بلا کا نام ہے۔ سفارش اور رشوت، دھونس دھاندلی منہ زور گھوڑے کی طرح ہر طرف ہنہنانے لگی۔

جب عوام نے ان لوگوں کو ملکی قوانین سے کھیلتے دیکھا تو جس کا جدھر بس چلتا اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ٹریفک کی سب سے زیادہ خلاف ورزی آپ کو ان وارڈنز میں نظر آئے گی۔ کبھی پولیس اور ٹریفک وارڈنز ملازمین کے موٹر سائیکل نمبر پلیٹس، ٹریفک لائسینس، ہیلمٹ، ون وے کی خلاف ورزی اور ان موٹر سائیکل کے کاغذات کی پڑتال کی جائے تو سی ٹی او صاحب کے لئے عوام پر جرمانہ ایف آئی آر کٹوانا آسان ہو جائے گی۔

یہ بھی اس ملک کے ساتھ زیادتی ہے کہ جو میڈیکل شعبہ سے وابستہ لوگ، وہ فارغ التحصیل ہو کر دوسرے شعبوں میں جا کر اپنا رنگ دیکھا رہے ہیں۔ ایک ڈاکٹر بننے پر گورنمنٹ آف پاکستان کا کتنا خرچ آتا ہے۔ ان کو چاہئے کہ اپنے شعبے میں نام پیدا کریں نہ کہ دوسرے اداروں میں سیاسی سفارش اثر و رسوخ اور رشوت کے ذریعے دوسروں کا حق چھین کر فرعون بنا جائے۔

ایک ٹریفک آفیسر ایسا بھی دیکھا جو اپنے وارڈنز کو سمجھا رہا کہ آپ ریونیو اکٹھا کرنے والے ادارے سے منسلک نہیں ہیں، نہ ہی آپ کا یہ کام کہ غریب لوگوں کو جرمانے کی چٹیں پکڑاتے جائیں اپنے ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لئے۔ آپ کا بنیادی مقصد ٹریفک کے بہاؤ کو روانی میں رکھا جائے۔ جس نے بھی یہ ویڈیو دیکھی سبھی نے اس آفیسر کے لئے تحسین کے کلمات ادا کئے۔ ایک لاہور کے ٹریفک آفیسر صاحب بہادر کے آرڈر ہیں کہ زیادہ سے زیادہ چلان جرمانے اور پرچہ کا اندراج بھی کیا جائے۔

یہ دو مختلف ٹریفک کے آفیسر ہیں پر سوچ کا انداز مختلف، محکمہ ایک ہے۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ کون صیح ہے کون غلط؟ ٹریفک وارڈن چلان بک پکڑ کے مطلق العنان حکمران ہوتا۔ اس کا رویہ ہتک آمیز اور لوگوں کی بےبسی کا مذاق اڑاتے ساتھی بالکل ایک فرعون کی طرح محسوس ہوتے ہیں۔ وجہ ٹریفک کے قوانین کی بھرمار کا ہونا ہے۔ آپ کو جب روک لیا جائے تو ممکن ہی نہیں کہ آپ کسی نہ کسی قانون کے شکنجے میں دھر نہ لئے جائیں۔

حکمرانوں سے گزارش ہے کہ اپنےمقدموں سے جان خلاصی پانے کے بعد عوام پر بھی رحم کیا جائے۔ موٹر سائیکل اب ایک سائیکل کا درجہ لے چکی ہے۔ اسی کو اگر ون وے سے نکال دیا جائے تب بھی کچھ ریلیف ممکن ہے۔ مال روڈ لاہور پر دو ایسے پوائنٹ جہاں روزانہ ہزاروں موٹر سائیکل سوار آتے ہیں۔ وہاں کے روڈز کی ون وے شرط ختم کر دی جائے تو لوگ دعائیں دیں گے۔ ایک روڈ پر ایک مشہور آئس پارلر ہے۔ دوسرے روڈ پر موبائل کی مشہور مارکیٹ۔

وہاں پر کوئی واضح سائن بھی موجود نہیں جس سے عام آدمی یہ سمجھ سکے کہ یہ ون وے ہے۔ ٹریفک وارڈنز کے مال روڈ پر یہ دو پوائنٹ ان کے پسندیدہ ہیں۔ سفارشیں کر کے ان پوائنٹس پر ڈیوٹی لگوائی جاتی وہاں پر ٹارگٹ کا حصول پکی پکائی کھیر کیطرح ہوتا۔ یہ ہم سب کا رویہ، طریقہ ایک ہی ہے کہ جس پر زور چلتا اسی کو دبایا جائے۔ ہائیکورٹ لاہور کے گیٹ کے سامنے مال روڈ کے فٹ پاتھ پر جیسے جیسے دن گزرتا مافیا فٹ پاتھ پر قبضہ کر چکا ہوتا ہے۔

کئی بار ٹریفک وارڈنز کو ذاتی طور پر اس قانون کی خلاف ورزی پر ان کے علم میں لایا گیا لیکن وہ بےبسی کی تصویر بنے نظر آئے۔ کیا موجودہ سی ٹی او صاحب اس قانون کی خلاف ورزی پر کوئی ایکشن لیں گے؟ کیا پیدل چلنے والوں کے حقوق قانون میں درج نہیں؟ ساری دنیا پیدل چلنے والوں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ ہمارے ہاں پیدل چلنے والوں کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔

جب ملک کے اہم شہر لاہور اس کی اہم شاہراہ مال روڈ جس کو لاہور کا دل بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے فٹ پاتھ جن پر ماضی کی معروف تاریخی شخصیات کے قدم پڑ چکے ہیں۔ کئی تاریخی کتب میں ان فٹ پاتھ سے وابستہ یادیں بھی تحریر کی گئی ہیں۔ ان کا اب کوئی پرسان حال نہیں۔ مافیا کے مکمل کنٹرول میں ہیں۔ ان فٹ پاتھ کو اس مافیا سے آزاد کروایا جائے اور کچھ مستقل حل نکالا جائے کہ دوبارہ ان فٹ پاتھس کو موٹر سائیکل سٹینڈ نہ بننے دیا جائے۔ ٹریفک وارڈنز بھی کبھی کبھار رانگ پارکنگ گاڑی کو لفٹ سے اٹھا کر فٹ پاتھ کی زینت بنا دیتے ہیں۔ یہ عمل کہاں تک ٹھیک ہے فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں۔

ٹریفک کے مسائل چالان، جرمانے، پرچے کٹوانے سے حل نہیں ہوں گے۔ اگر ریونیو اکٹھا کرنا مقصود تو ڈرائیونگ لائسینس کو عام کر دیں۔ ڈرائیونگ اسکول عام کر دیں۔ بچوں کو پرائمری سطح سے ٹریفک کے اصول، قانون سکھائے، پڑھائیں جائیں۔ جیسے شناختی کارڈ اٹھارہ سال میں بن جاتا ساتھ ہی ڈرائیونگ لائسینس بھی بن جانا چاہئے۔ کاروباری مراکز میں گاڑیوں کا داخلہ ممنوع قرار دیا جائے۔ رات آٹھ کے بعد آنے کی اجازت دی جائے۔

جگہ جگہ ہائیڈرالک پارکنگ بنائی جائے۔ موٹر سائیکل پارکنگ سٹینڈ کو کئی منزل تک بنایا جائے۔ جو نیا پلازہ، عمارت بنے یقینی بنایا جائے کہ اس کا اپنا پارکنگ ایریا ہو۔ اور اس کا مالک ضرورت کے مطابق پارکنگ دینے کا پابند ہو۔ موٹر وے پولیس کی طرز پر اپنی فورس کو تشکیل دیں اور اس کی بھرتی خالص میرٹ کی بنیاد پر ہو۔ سفارش، رشوت سے بھرتی ہوا اہلکار اپنے اوپر ہوئے معاشرتی ظلم و ستم کا بدلہ ایک غریب ریڑھی بان، رکشہ ڈرائیور، موٹر سائیکل سوار کو اپنے ستم کا نشانہ بنا کر اپنی روح کی تسکین کرتا ہے۔

جو کہ معاشرے میں مزید انارکی، لڑائی جھگڑے، بدامنی کی وجہ بنتی ہے۔ جب آپ عوام کو یہ سب سہولتیں دیں تب آپ ٹریفک قوانین پر عمل کروا لیجئےگا اور ایف آئی آر کا شوق بھی پورا کر لیجئے گا۔

کوئی شک نہیں کسی معاشرے کا اندازہ کرنا ہو تو اس ملک کے ٹریفک کے نظام کو دیکھ لیں۔ معاشرے کا اندازہ ہو جائے گا۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali