Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Tawakal

Tawakal

توکل

توکل کے معنی ہیں، بلا دوڈ دھوپ کے جو کچھ مل جائے اس پر گزارہ کرنا۔ قناعت، سازوسامان یا معاش سے بے پرواہی۔ تسلیم ورضا، فرما ں برداری۔ اپنا کام دوسروں پر چھوڑ دینا، اعتماد کرنا وغیرہ ایک مسلمان کا اپنے رب پر توکل بہت مضبوط ہوتا ہے۔ اس کو توکل علی اللہ کہا جاتا ہے۔ جو کہ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن توکل علی اللہ کے لئے پہلے اونٹ کے گھٹنا کو باندھنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم اپنے ملک پر طائرانہ نظر ڈالے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا ملک توکل پر چل رہا ہے۔

اونٹ کا گھٹنا باندھا ہوا کہیں نظر نہیں آتا۔ اس کی حالیہ مثال مری کا وہ سانحہ ہے جو ابھی ابھی قیامت ڈھا کے گزرا ہے۔ اور اس میں سب توکل کر کے بیٹھےرہے۔ پاکستان بننے سے لیکر اب تک ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ افسر شاہی اپنے دفاتر سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ زیادہ تر زمینی حقا ئق سے بے خبر ہے۔ دوسرے اداروں کی طرح اس میں میں جو بابو بھرتی کئے گئے ان کے قابلیت پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں؟ نااہلی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔

اتفاقی حادثات دنیا میں ہر جگہ ہوتے ہیں۔ لیکن زندہ قومیں آئندہ کے لئے اس کی روک تھام میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتی ہیں۔ ہمارے ہاں باوا ہی نرالا ہے پتہ نہیں یہ کس نے ریت چلائی ہے کے ایسے حادثات پر فوٹو سیشن کر کے ووٹ بینک کو بڑھاوا دینےکے لئے لواحقین کو نقد رقوم کا جھانسہ دیکر اپنی سیاسی دکانداری چمکا کر نو دو گیارہ ہو جاتے ہیں۔ جتنے پیسے ہم مرنے کے بعد اداکرتے ہیں۔ ان سے کم رقم میں حفاظتی انتظامات کو بہتر کر سکتے ہیں۔

سیاحت کو فروغ دینا ہے تو ہمیں وہ سب انتظامات کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہو گا۔ جس میں سیاح کی جان مال کو تحفظ حاصل ہو۔ کوئی بھی سیاحتی مقام کھولنے سے پہلے ایمر جنسی کی صورتحال سے نپٹنے کے سب ذرائع آپشنل ہونے چاہئے۔ عوام کی آگہی کےلئے ممکنہ خطرات سے بچاؤ کی تدابیر کا ایک جامع روڈ میپ ہونا چاہئے۔ گھٹنا باندھنے کے بعد توکل کی پالیسی اپنائی جا سکتی ہے۔مری کا سا نحہ اپنے پیچھے بہت سے سوال چھوڑ گیا ہے۔ انتظامیہ کی غلطی اپنی جگہ ہمارے اپنے پیارے بھی لا علمی کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے۔

گاڑیوں میں ہیٹر آن کر کے سونا ہو یا کمرے کے اندر گیس ہیٹر کا استعمال دونوں انسانی جان کے لئے بہت خطرناک ہوتا۔ آکسیجن کی کمی اور کاربن مونو آکسائیڈ کی زیادتی انسان کو موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہے۔ ایسے واقعات ہمارے معاشرےمیں سردیوں میں اکثر رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ پر ہم اس سے آئندہ کے لئے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے۔ بار بار ایسے واقعاترپورٹ ہوتے رہتے۔

ایک یہ بھی نیا ٹرینڈ وجود میں آ گیا ہے کہ جب تک میڈیا اس کی رپورٹنگ یا نشان دہی نہیں کرتا متعلقہ ادارےکے لوگ ستو پی کے سوئے ہوتے۔ میڈیا ان کو جیسے چلاتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اور یہ شوروغوغا کچھ دن میڈیا پر رہتاہے تا وقتکہ کوئی اور سانحہ نہیں ہو جاتا۔ اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ متعلقہ اداروں کو بھی سوچنا چاہئے اورحکومت کی ذمہ داری زیادہ بنتی کہ وہ ہر ادارے کو جواب دہ بنائے توکل اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی سے اجتناب برتا جائے۔ تا کہ آئندہ کوئیبھی قدرتی آفات ہمارے لئے زحمت کا باعث نہ بن سکے۔

Check Also

Apni Jaron Se Miliye

By Arif Anis Malik