Qeeme Wala Naan Aur Biryani Ki Plate
قیمے والا نان اور بریانی کی پلیٹ

7 دسمبر ووٹر کا عالمی دن تھا، جو کہ خاموشی سے گزر گیا۔ سوائے اخبار کے آخری صفحہ پر ایک اشتہار اور سنگل کالمی سرخی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔
زبان سے بے اختیار آتش صاحب کا یہ شعر نکل گیا کہ
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو ایک قطرہ خوں تک نہ نکلا۔
الیکٹرانکس میڈیا اور سیاسی جگادر جو ہمیشہ یہ رطب السان رہتے تھے کہ ووٹ کو عزت دو۔ آج وہ سب کہاں تھے؟ اصولی طور پر آج تمام ٹی وی چینلز اور تمام سیاسی پارٹیز کو ووٹرز کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔ پر سب شانت تھا۔ میری نظر میں ووٹ کو عزت دو کی بجائے ووٹر کو شعور دو اس بیانیہ کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان مملکت خداداد بھی ووٹ کے ذریعے ہی وجود میں آئی ہے لیکن ملک کے پچھلے پچھتر سالوں میں ووٹر کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے۔ الحفیظ الامان
میں ایک ٹاک شو دیکھ رہا تھا جس میں تین معزز ٹاپ کے صحافی براجمان تھے۔ بات ہو رہی تھی کہ ملک میں صدارتی نظام ہونا چاہئے یا پارلیمانی؟ دو صحافی اسی نظام کے حق میں تھے۔ ایک صدارتی نظام کے حق میں بول رہا تھا۔ جب اس نے ووٹر کے ووٹ کی قیمت ایک قیمے والا نان اور بریانی کی پلیٹ لگائی اور یہ بھی بتایا کہ دو دو ہزار میں ووٹ بکتا کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہے تو یقین جانئے سر شرم سے جھک گیا۔ کیونکہ سب جگہ نہیں پر کہیں نہ کہیں ووٹر سے ووٹ ایسے ہی دلوائے جاتے ہیں۔
اس سے بڑھ کر برادری ازم پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ برادری کا بندہ ہونا چاہئے اخلاقیات کیا ہوتی کوئی سروکار نہیں۔ گدی نشین ہونا بھی الیکشن میں کامیابی کی کنجی سمجھا جاتا ہے۔ وڈیرہ، شاہی، جاگیر دارانہ نظام آج بھی پوری تمکنت کے ساتھ کھڑا ہے۔ مجال ہے کوئی میڈیا ان ایشوز پر بات کرے۔ کوئی اس ایشو کو ایشو ہی نہیں سمجھتا۔ حالانکہ ملک کی تقدیر کے فیصلے اس ووٹر کے ووٹ میں پنہاں ہے۔
ملک میں چاہے صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی نظام جب تک ووٹر کو ووٹ کی قدر و قیمت اور اس کا صحیح وقت پر صحیح استعمال کا شعور نہیں دیا جاتا، جب تک ووٹ چوری کو نہیں روکا جاتا، جب تک ووٹر کی ریڈ لائن اس کے حقوق کا تعین نہیں کیا جاتا کچھ بھی تبدیلی ممکن نہیں۔ ملک میں موجود سب اداروں کی ریڈ لائن ہے۔ ووٹر اس لائن کو کراس نہیں کر سکتا تو کیا ووٹر کا حق نہیں کہ وہ پوچھ سکے کہ میری ریڈ لائن کہاں سے شروع ہوتی ہے؟
جس دن ووٹر یہ سوال کرنے کے قابل ہوگیا اور وہ اپنے ووٹ کا تحفظ کرنے لگ گیا تو اس ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ میری تمام سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ سے گزارش ہے کہ ووٹر کے اس عالمی دن کے موقع پر ووٹر کو شعور دو کا بیانیہ ٹاپ ٹرینڈ بنائیں اور اس نعرہ کو عملی جامہ پہنانے میں اس کاوش کا حصہ بنیں۔ اگر ہم آج اس مہم کا حصہ نہیں بنیں گے تو ووٹ قیمے والے نان، بریانی کی پلیٹ اور مبلغ دو ہزار روپیہ میں ہی فروخت ہوں گے۔
اور کبھی ووٹر کے ووٹوں والا صندوق دھند کی وجہ سے اور کبھی آرڈی ایس سسٹم بیٹھنے سے ووٹر کے ووٹ آگے پیچھے ہوتے رہیں گے۔ اور کبھی فائرنگ کر کے پولنگ بوتھ پر الیکشن کا عمل روک کر ٹھپے لگا کر ووٹ بکس ووٹر کی مرضی کے برخلاف بھرتے رہیں گے، اور کبھی فرشتے اپنا کام دیکھا جائیں گے، اور یہ بھی ہمارے ملک کا طرہ امتیاز کہ فوت شدگان ووٹر بھی ووٹ ڈال جاتے ہیں۔
یاد رکھیں ووٹ ایک قومی ذمہ داری ہے۔ ہمیں سوچ سمجھ کے اپنا ووٹ کاسٹ کرنا چاہئے اور ایک سمجھدار باشعور ووٹر ہونے کا عملی ثبوت دینا چاہئے۔ جتنی جلدی اور بار بار الیکشن ہوں گے۔ چھلنی سے چھن کر آنے والوں میں بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ دنیا امید پر قائم ہے۔ اس ملک کی بہتری الکیٹرونکس ووٹ مشین کے استعمال سے بھی ہو سکتی ہے۔ آزمائش شرط ہے۔

