Qaum Ya Hajoom
قوم یا ہجوم

الحمداللہ پاکستان کی عوام یوم آزادی اس بار ڈائمنڈ جوبلی کے طور پر منانے جا رہی ہے۔ بحثیت پاکستانی ہمارے لئے یہ باعث عزت اور فخر کی بات ہے۔ آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کی قدر کرنی چاہئے۔ اور صیح طور پر اس کو منانے میں کوئی قباحت نہیں۔ پر ہم ابھی تک اپنی قوم کوآزادی کا جشن منانا نہیں سکھا پائے، سوائے ہلڑ بازی، سائلینسر نکال کر۔
تیز باجہ بجا کر، گاڑیکے باہر پاکستانی جھنڈا اندر انڈین میوزک سے لطف اندوز ہوتے اور بھنگڑا ڈالتے ہیں۔ اور یوں ہمارا چودہ اگست کا اختتام ہو جاتا ہے۔ جھنڈا کسی بھی ملک کی شناخت ہوتا ہے۔ جب جنگیں دوبدو لڑی جاتی تھی۔ اگر جھنڈے کو زمین پرگرا لیا جاتا تو فتح شکست کا فیصلہ ہو جاتا تھا۔ اگر ہم اپنی طرف دیکھیں تو جھنڈا یا قومی پرچموالی جھنڈیاں ہم لگا تو لیتے ہیں پر پھر ان کو اتارنا بھول جاتے ہیں۔
اگلے روز وہ لوگوں کے پاؤں کے نیچے یا کوڑا دان میں پڑی نظر آتی ہیں۔ پرچم سورج طلوع ہونے کے ساتھ لگانا چاہئے اور غروب آفتاب سے پہلے اس کو کھول لینا چاہئے، اسی طرح قومی پرچم کی جھنڈیوں کی حفاظت کرنی چاہئے ان کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا چاہئے کہ پرچم کی بے حرمتی نہ ہو۔ پوری قوم کو شکرانے کے دو نوافل ادا کرنے چاہئے اور جو لوگ آزادی کے حصول کے دوران جان کیبازی ہار گئے۔
ان کی روحوں کی ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی کا اہتمام قومی اور انفرادی سطح پر کرنا چاہئے۔ اور ملک کی بہتری سلامتی ترقی کی دعائیں مانگنی چاہئے۔ قیام پاکستان کے دوران ہمارے اجداد نے جانی اور مالی قربانیاں دیں۔ اس دور کے بزرگ اب خال خالہی نظر آتے ہیں۔ بہت ضروری کہ ان بزرگوں کو ڈھونڈ کر ایک ڈاکو منٹری بنائی جائی۔ ان واقعات کو رپورٹ کیا جائے۔
اس ظلم بربریت اور مشکلات کو اجاگر کیا جائے۔ اور یہ سب موجودہ نسل تکمنتقل کیا جائے۔ ان کو احساس دلایا جائے کہ آزادی پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملتی۔ اس کی قدر کرنا سیکھیں۔ موجودہ نسل میں آزادی کے بارے میں وہ جذبہ جنون باقی نہیں۔ جو اس سے پہلے ماضیمیں ہوتا تھا۔ وہ جذبہ ماند پڑ رہا ہے۔ اس کو نئے سرے سے جلاء بخشنی چاہئے۔
بہت ضروری من حیث القوم قیام پاکستان سے لیکر اب تک سیاست دانوں، بیوروکریٹس، قومی دفاعیاداروں یا اشخاص اور عدلیہ سے جہاں جہاں بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔ ان کا بر ملا اظہار ہونا چاہئےاور آئندہ ان غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہئے تا کہ دوبارہ ہم اس دلدل میں نہ پھنسے۔ جب تک ہماپنی غلطیوں کا اقرار نہیں کرتے اور آئندہ کے لئے اصلاح نہیں کرتے جتنے مرضی ڈائمنڈ جوبلی منالیں۔ ڈھلوان کی طرف سفر جاری رہے گا۔
ایک اور المیہ جو ہمیں آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔ وہ ہے اجتماعیت کا فقدان ہمانفرادی طور پر بہت کامیاب رہتے ہیں، چاہے وہ کھیل کا شعبہ ہو یا مالی معاملات بہت آگے تک چلےجاتے ہیں، لیکن ہم بحثیت قوم ایک نکتے پر اکٹھے نہیں ہوتے۔ ماضی میں چند مواقع ایسے آئے ہیں، جب قوم یکجان نظر آئی 65 کی جنگ میں کہتے کہ چوری کی کوئی واردات رپورٹ نہیں ہوئی۔
28 مئی جب ہم ایٹمی قوت بنے، اور 27فروری میں جب ہماری فضائیہ نے دشمن کے دانت کھٹے کئے تب ہماری قوم یکسو نظر آئی۔ لیکن افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا کہ ہم ذات پات، نسل، قوم، برادری، مسلکی فقی، صوبائیتعصب، کا شکار لوگ ہیں۔ یہی وجہ کہ ہم ایک ڈیم جو کہ ملک کے لئے بہت ضروری تھا۔ دشمنوں اور ذاتی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ہم نے اس کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچنے دیا۔
جس کا خمیازہ ہمبھگت رہے ہیں۔ اور آنے والی نسلیں بھی اس کا شکار ہوں گی۔ 14 اگست تجدید عہد کا دن ہے۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور یہ عہد کرنا چاہئے کی ملکی مفاد ہمیشہ پہلی ترجیح ہونا چاہئے۔ بیرونملک ہمارے پاکستانی بھائیوں کو بھی چاہئے کہ اپنے ملک کی شان اور عزت کا خیال کریں۔ کوئی بھی ایسا قدم نہ اٹھائے جو ملک کی بدنامی کا باعث بنے۔
آپ دوسرے ممالک میں پاکستان کے سفیرہیں۔ پاکستان کے سبز پاسپورٹ کی عزت کروائیں۔ ہمیں ذاتی فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک قوم بننا ہے۔ منشیات، جہالت، فرقہ پرستی، صوبائیعصبیت۔ دہشت گردی، کو دفن کر کے ملک کو ایک نئے ڈگر پر لے کر جانا ہے۔ ہم ہجوم تو ہیں پر اب وقت آ گیا ہے کہ ایک قوم بن جائیں۔
علامہ اقبال رح نے بھی یہی پیغام دیا تھا کہ۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

