Putli Tamasha
پتلی تماشہ

پرانے وقتوں میں میلوں، ٹھیلوں اور دیہاتوں میں اکثر پتلی تماشہ کرنے والے آتے تھے۔ یہ باقاعدہ ایک آرٹ ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر بھی بہت عرصہ اس نام سے ایک ہٹ پروگرام نشر ہوتا رہا۔ کچھ کردار بھی لوگوں کے ذہن میں موجود ہیں۔ موجودہ ملکی سیاسی صورتحال جب سے حکومت تبدیل ہوئی ہے۔ ایک پتلی تماشہ سے کم نہیں ہے۔ "سامنے آتے بھی نہیں ہو اور چھپتے بھی نہیں ہو" والا معاملہ چل رہا ہے۔ عوام حواس باختہ کیونکہ وہ بے بس ہے۔ کوئی راہ سبیل نظر نہیں آ رہی۔
جو ملک پر مسلط ہیں ان کے عمل سے لگ رہا کہ ان کو عوام سے کوئی سروکار نہیں۔ جو گٹھ جوڑ نظر آ رہا سب اپنے اپنے مفاد کی گیم کر رہے۔ سب جلدی میں۔ مجال ہے ان آخری تین ماہ میں عوام کے مستقبل کے حوالے سے کوئی مشاورت ہوئی ہو۔ عوامی مفاد کے لئے کوئی گفت و شنید یا بے چینی کا اظہار کیا گیا ہو؟ حکومت کبھی اتنی بے یارو مددگار نہیں دیکھی گئی۔ اور کبھی بھی اتنی نا پسندیدہ نہیں سمجھی گئی کہ ملک کا وزیراعظم خطاب کر رہا ہو اور لوگوں کی دلچسپی ندارد۔
ہمیں کچھ حقیقتوں کو مان لینا چاہئے۔ ایک سابق چیف آف آرمی سٹاف جناب جہانگیر کرامت صاحب نے تجویز دی تھی۔ موجودہ صورتحال میں سب سیاسی جماعتوں کو متفقہ طور پر اس تجویز کو عملی جامہ پہنا دینا چاہئے۔ اب میڈیا کی موجودگی میں لوگوں کو ہراساں کر کے آپ عوام کے ذہنوں پر پہرے نہیں بٹھا سکتے ہیں۔ لوگ اس پتلی تماشہ کو سمجھنے لگے ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو ملک کے تین صوبوں میں کہیں نہ کہیں ہمارے ایک اہم ادارے کے بارے میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔
اس کا اظہار ہمیں کئی صورتوں میں مل جاتا ہے۔ ایک صوبہ پنجاب ایسا صوبہ جس کی عوام اس ادارے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ لیکن پے در پے ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے لوگوں کے اندر شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ اس بے چینی اور تشویش کو دور کرنا موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نہ کہ لوگوں پر مقدمات درج کر کے ان کی آواز کو دبانا۔ یاد رکھیں قانون فطرت ہے آپ جس کو جتنی قوت سے دبائیں گے وہ اتنی ہی شدت سے واپس آتی ہے۔
ملک ہم سب کا ہے۔ خدارا ذاتی عناد، پسند نا پسند، سے بالاتر ہو کر ملک کی فکر کریں۔ عوام کو تقسیم کرنا، اداروں پر سے اعتماد کا اٹھ جانا انارکی پیدا کرتا ہے۔ دلوں میں نفرت بیٹھ جائے تو جلدی زخم مندمل نہی ہوتے۔ کاش کوئی اس پتلی تماشے کو روک دے۔ اگر عوام میں اداروں کے درمیان خلیج بڑھتی گئی تو یہ کسی کے لئے بھی سود مند نہیں ہو گی۔
خوف ایک ایسا ہتھیار جو سبھی حکومتیں اپنے اقتدار کے دوران مخالفین پر مقدمات کر کے تسکین حاصل کرتی ہیں۔ یہ ظلم، بربریت بند ہونی چاہئے۔ لازمی ایسے قوانین اب نا گزیر ہو چکے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ نئی قانون سازی کی جائے۔ زیادہ تر ممالک میں کیس درج ہونے کے بعد تحقیق کی جاتی ہے ٹھوس شواہد ملنے کے بعد گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں اس کے الٹ ہوتا ہے۔ جس کا جو دل کرتا ہے "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" والا معاملہ ہے۔
بہت ضروری ہے کہ ہر کیس میں پہلے سائنٹیفک طریقے سے معاملے کی انکوائری کی جائے جب ٹھوس شواہد ہوں تب گرفتاری عمل میں لائی جائے اور اس کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔
ہم آزادی کا ڈائمنڈ جوبلی منا رہے ہیں۔ کم از کم ہمیں انصاف کے معیار کو بہتر بنا لینا چاہئے۔
یاد رہے کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نہیں۔
یہ کٹھ پتلی تماشہ بار بار دیکھ کر لوگ اکتا گئے ہیں۔
دنیا کے کسی ملک میں فوج کے سربراہ کی تعیناتی پر اتنی گفت و شنید نہیں ہوتی جتنی ہمارے ہاں اور یہ ہر بار ہوتا۔ اس کا بھی کوئی حل نکالنا چاہئے۔ میرے خیال میں اسی ادارے کو کلی اختیار دے دینا چاہئے کہ وہ جس کو چاہے اپنا سربراہ لگا لیں۔ جیسے دوسری پرموشنز ہوتی ویسے ہی وہ یہ سب اپنے ادارے کے اندر سے ہی اس مرحلے کو سر انجام دیں لیں۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا یہ کھچڑی پکتی رہے گی اور بیچ چوراہے ہنڈیا گرتی رہے گی۔

