Pankh Pakheru
پنکھ پکھیرو

آزادی کی قدر جاننی ہو تو آسمان پر اڑتے پرندے دیکھو۔ کیسے وہ پر پھیلائے آسمان کی وسعتوں میں دائیں بائیں اوپر نیچے اپنے ربّ کی ربوبیت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ربّ کی تخلیق کردہ مخلوق ہے جو اپنی پوری آن، بان، شان کے ساتھ قوس و قزاح کی طرح رنگ بکھیرتے نظر آتے ہیں۔
امریکہ میں پانچ جنوری پرندوں کے قومی دن کے طور پر مختص ہے جو کہ ایک اچھی کاوش ہے۔ ہمارے ہاں بھی پرندوں کے حوالے سے ان کی نشوونما، ان کے تحفظ، ان کو قدرتی ماحول دینے کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کی عملی کاوشوں کی اشد ضرورت ہے۔ خاص کر جس معاشرے میں عدم برداشت پایا جاتا ہو، صلہ رحمی، قطع تعلقی، ذاتی عناد، بغض، کینہ، پیسے کی حوص۔ جیسے معاملات عام ہوں۔ ایسے رویوں کی شدت کو کم کرنے کا طریقہ نفسیات دان کہتے ہیں کہ گھر میں کسی پرندے کی پرورش کی جائے تو بچوں کے ذہنوں پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جو کہ مستقبل میں معاشرے میں امن و سکون بھائی چارہ قائم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
پرندوں کا ذکر ہمیں قرآن پاک میں بھی ملتا ہے۔ ہدہد پرندے کا ذکر ملتا ہے۔ ابابیل کا ذکر موجود ہے۔ کہتے کہ جب زمین پر پہلا قتل ہوا تو کوّے نے زمین کھود کر انسان کو بتایا کہ ایسے تدفین کرو۔
پرندے ویسے آزاد ہی اچھے لگتے ہیں ان کو قید کرنا مناسب نہیں۔ لیکن جو پرندے گھروں میں پالے جا سکتے ہیں ان پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔
پرانی کہانیوں میں کبوتر کا ذکر ملتا ہے کہ کیسے ان سے خط کی ترسیل کا کام لیا جاتا تھا۔ شاعر حضرات نے کبوتروں پر کافی طبع آزمائی کی ہے۔
بچپن میں آسمان پر پرندوں کے غول گزرتے تھے تب اتنی معلومات نہیں تھیں بس اتنا بتایا گیا تھا کہ یہ کونجیں ہیں۔ ہم بچے مل کے شور کرتے تھے کہ کونجو کونجو اک پھیرا پا جاؤ (کونجوں ایک چکر لگا دو) پتہ نہیں وہ آواز ان تک جاتی تھی یا نہیں ان کو سمجھ آتی تھی یا نہیں لیکن وہ واقعی میں گول چکر لگانا شروع کر دیتی تھیں۔ اب تحقیق کرنے والے بتاتے کہ جو پرندے سائبیریا وغیرہ سے ہجرت کر کے آتے ہیں وہ ایک مخصوص تکنیک سے اڑتے ہیں جس سے ان کی توانائی کم خرچ ہوتی ہے اور وہ لمبا سفر کرنے کے قابل رہتے ہیں۔
ہم انسان بہت ظالم واقع ہوئے ہیں۔ درختوں کی بے دریغ کٹائی نے ان پرندوں کا مسکن چھین لیا ہے۔ بے جا شکار نے بھی قدرت کے یہ انمول موتی کم کر دئیے ہیں۔ ایک وقت تھا چڑیوں کی بہتات تھی۔ اب وہ بھی خال خال نظر آتی ہیں۔ پچھلے دنوں اپنے آبائی گاؤں جانے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ کوئی گوجرانوالہ سے ٹیم آئی تھی جو چڑیوں کے جال بھر بھر کے لے گئی کہ ان کو ہم نے گوجرانوالہ کے علاقہ میں چھوڑنا ہے وہاں پر یہ ناپید ہو چکی ہیں۔ واللہ عالم بالصواب کچھ لوگ اس فورجی ٹیکنالوجی کو مورد الزام ٹھرا رہے تھے کہ اس سے نکلنے والی شعائیں چھوٹے پرندوں کی موت کیوجہ بن رہی ہیں۔ اس میں کہاں تک صداقت ہے ہنوز تحقیق طلب ہے۔
شہروں میں پرندوں کو پکڑ کر لوگوں سے پیسے لیکر بطور صدقہ پرندے آزاد کرنے کا وسیع نیٹ ورک موجود، اس پر روک لگانا بہت ضروری ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر رات کے وقت نکلتے ہیں جب کوئی ان پرندوں کو آزاد کرتا ہے تو وہ زیادہ تر رات ہونے انجان جگہ ہونے کی وجہ سے اپنی بقا کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ہمیں انفرادی طور پر بھی ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔
بہت سے ممالک پرندوں کی امپورٹ سے کافی زرمبادلہ کما رہے ہیں۔ ہم جو معاشی بدحالی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم بھی نایاب اور پالتو پرندوں کی بریڈنگ کریں اور کمرشل لیول پر ایکسپورٹ کریں۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کمایا جا سکے۔
پرندوں کی ایک عادت جو ہمارے لئے ایک مشعل راہ ہے کہ یہ روزانہ کی بنیاد پر کھانا تلاش کرتے ہیں۔ اور ربّ تعالیٰ ان کی خوراک کا بندوبست کر دیتا ہے۔ توکل کا ایک یہ بھی درجہ ہے۔ ہم اس توکل کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔ یہ جو نفسا نفسی ہے اسی کمزوری کا نتیجہ ہے۔
بلھے شاہؒ نے اس کی کیا خوب تصویر کھینچی ہے فرماتے ہیں کہ
"ویکھ بندیا آسماناں تے اڈدے پنچھی
ویکھ تے سہی کی کردے نے
ناں او کردے رزق ذخیرہ
ناں او بھکے مردے نے
کدی کسے نے پنکھ پکھیرو
بھکے مردے ویکھے نے؟
بندے ہی کردے رزق ذخیرہ
بندے ہی بھکے مردے نے۔

