Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Oont Re Oont Teri Konsi Kal Seedhi?

Oont Re Oont Teri Konsi Kal Seedhi?

اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی؟

یہ محاورہ بہت بار پڑھنے سننے میں آیا پر اس کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ پر یہ محاورہ اب ہماری اجتماعی زندگی پر پوری طرح فٹ بیٹھتا ہے۔ ویسے تو ہم اپنے ملک کو اسلامی ممالک کی لسٹ میں رکھتے ہیں اور اس پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں جو کہ اچھی بات ہے۔ لیکن جب نچلی سطح پر سماجی معاملات پر نظر جاتی ہے تو دل کہتا، پڑھتا جا، شرماتا جا۔ کیا یہ ہمارے لیے شرم کا مقام نہیں کہ مسجد کے دروازے پر بندوق بردار کھڑا کرنا پڑتا ہے؟ بندوقوں کی سنگینی کے سائے میں نماز ادا کرنا پڑتی ہے۔

ہم کیسے مسلمان ہیں کہ جوتے کو سامنے رکھ کے نماز ادا کرنا پڑتی ہے۔ (جوتا سامنے رکھے نماز نہیں ہوتی پیچھے رکھے تو جوتا نہیں ہوتا)۔ ہم کیسی قوم ہیں کہ پانی کی سبیل کی ساتھ گلاس کو باندھنا پڑتا ہے۔ مساجد سے پنکھے چرانا، وال کلاک چوری کرنا، حتیٰ کہ مساجد کی ٹوٹیاں تک محفوظ نہیں۔ جن اداروں نے قانون پر عمل درآمد کروانا ہے ان کے اپنے کمروں میں چارپائی کے ساتھ بکس کو زنجیر کے ساتھ باندھا ہوتا ہے۔

اسلام تو کہتا ہے کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں پھر ہم دودھ کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہے؟ پانی کی ملاوٹ قابل برداشت تھی پر اب ایسے ایسے فارمولے اپلائی کئے جا رہے الحفیظ الامان۔ ہم اپنی نسل کو دودھ کے نام پر زہر پلا رہے ہیں اور ہمیں اس پر کوئی شرمندگی نہیں۔ ایک پنکچر والا سڑک پر کیل پھینک کر تماشہ دیکھتا ہے میں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ جب بھی سڑک پر بائیک پنکچر ہوتی ہے تو قریب سے ہی پنکچر لگانے والا موجود ہوتا ہے۔

ریل کے سفر میں بغیر ٹکٹ سفر کرنا اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔ ایسا کیوں؟ چاول میں شیشہ کے ٹکڑے ڈالنا دالوں میں وزن بڑھانے کے لئے پتھر شامل کرنا روٹین ورک ہے۔ نقطہ چینی کرنا دنیا کا سب سے آسان کام، ہم ہر حکومت کے لتے لیتے رہتے ہیں لیکن خود کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔ پھر وہی رزلٹ نکلتا ہے جو فرمایا گیا ہےکہ جیسے لوگ ہوں گے ان پر ویسے ہی حکمران مسلط کر دئیے جاتے ہیں۔

وہ ممالک جن کو ہم غیر مسلم ریاستوں میں شامل کرتے ہیں۔ انہوں نے بنیادی اسلامی تعلیمات کو اپنا کر اپنے معاشرے کی اٹھان کی ہے۔ نماز کا وقت پر ادا کرنا ہمیں اس بات کی طرف راغب کرتا ہے کہ ہم ہر معاملات میں وقت کی پابندی کو اپنا شعار بنائیں لیکن الٹی گنگا بہتی نظر آ رہی ہے۔ وضو، طہارت، پاکیزگی، صفائی ایک مسلمان کا خاصہ ہے پر اس کو وسیع تناظر میں دیکھنا بہت ضروری۔

کیا ہم اپنے ملک میں صفائی کا اتنا اہتمام کرتے ہیں؟ جواب نفی میں ہے ہم اپنے دروازے کا گند دوسرے کے دروازے کے آگے کرتے ہیں اور ہاتھ جھاڑ کے سمجھتے ہیں کہ صفائی مکمل ہو گئی ہے۔ کہاں تک سنے گیں کہاں تک سناؤں والا معاملہ ہے۔ ایک اچھا طبیب وہی ہوتا جو مرض کی تشخیص صحیح سے کرے۔ ہم ابھی تک اچھا طبیب نہیں لا سکے۔

ذرا سوچئے ہم حج بھی کرتے ہیں۔ نماز، روزہ کی پابندی بھی کرتے ہیں۔ ملک میں ایک اجتماع ایسا بھی ہوتا ہے بقول ان لوگوں کے کہ حج کے بعد یہ دوسرا بڑا اجتماع ہوتا ہے اور یہ پاکستان بننے سے ہو رہا ہے۔ ملک میں دینی مدارس بھی جا بجا ہیں۔ جمعہ کے روز علماء اکرام خطبات سے بھی نوازتے ہیں۔ اس پر تو ہمارا معاشرہ جنت نظیر بن جانا چاہئے تھا۔ جو یہود و ہنود وہ تو یہ سب نہیں کرتے لیکن وہ اسلام کےبنیادی اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔ جس وجہ سے ان کی معاشرتی زندگی ہم سے کئی جہتوں میں آگے ہے۔

ہمیں علم حاصل کرنے کا حکم ہے۔ ہمیں اس کو دینی تعلیم یا دنیاوی تعلیم میں تفریق نہیں کرنا چاہئے۔ ہمیں حقوق العباد اور حقوق اللہ دونوں کو بہتر طریقے سے لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کرنا ہو گا۔ ہمیں اجتہاد کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ فقہی مسائل سے جو عوام میں تقسیم بڑھ رہی اس پر مکالمہ کو وسعت دینی ہو گی۔

ہمیں اپنی پرائمری تعلیم چاہے وہ مدرسہ سے ہو یا اسکول سے، اپنی نسل میں اخلاقیات کوٹ کوٹ کے بھرنا ہوں گی۔ اور جو قباحتیں ہمارے معاشرے میں سرائیت کر چکی ہیں ان کا سختی سے کچلنابہت ضروری ہے۔ اسلام کی تشریح اسلام کی اصل روح کے مطابق ہماری زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہونی چاہئے تبھی ہمارا معاشرہ جنت نظیر بن سکتا ہے۔ نہیں تو ہر کوئی یہی کہے گا کہ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی؟ علامہ اقبال کا شعر یاد آ رہا ہے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed