Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Nazriya e Zaroorat Aur Qaumi Mufad

Nazriya e Zaroorat Aur Qaumi Mufad

نظریہ ضرورت اور قومی مفاد

جب سے ہوش سنبھالا ہے نظریہ ضرورت اور قومی مفاد سے پالا پڑا ہے، اورآج تک یہ سمجھ نہیں پائے کہ ہمیں بار بار ان دواصطلاحوں سے ہی کیوں بار بار لوری دی جاتی ہے۔ اب کچھ دن سے شیر آ رہا ہے، کہ رن کانپ رہا ہے، جیسا ماحول بنایا جا رہاہے، چھٹی حس کہہ رہی کہ ایک بار پھر نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے دئیے جائیں گے اور قوم کے وسیع تر مفاد کو مدِ نظر رکھاجائے گا، آج تک قوم ان کے پیچھے چھپے ہاتھوں کو بے نقاب نہیں کر پائی۔ یاد رکھیں سب کو کچھ عرصہ تک تو بیو قوف بنایا جا سکتاہمیشہ کے لئے نہیں، آج کے جدید دور میں سوشل میڈیا نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔

اب پرانے رسل و رسائل کا دور نہیں کہ من چاہے فیصلے لیکر، من چاہی خبر دیکر، لوگوں کو رام کر لیا جائے گا، اب ایک سیکنڈ میں بال کی کھال ادھیڑ دی جاتی ہے۔ سو اب ان اداروں کو بھی سوچنا چاہئے، جو اس کٹھ پتلی کھیل کا سٹیج سجاتے ہیں اور ان اداکاروں کو بھی اپنے کرداروں پر نظر ثانی کرنی چاہئے کہ لوگ اب بار بار ایک جیسا کھیل، ایک جیسے فنکار، اداکار دیکھ دیکھ کر ان کی طبعتیں ابھ گئی ہیں۔ نوجوان نسل میں بے چینی بڑھ گئی ہے، اندر ہی اندر ایک لاوا پک رہا ہے، معاشرے میں واضح تفریق پیدا ہو گئی ہے، جو شعور رکھتے ان کو سمجھ آنا شروع ہوگیا ہے، کہ اب نظریہ ضرورت اور قومی مفاد جیسے پٹے ہوئے نعروں کو دفن کرنا ہو گا۔

جب تک ہم اس ٹرینڈ کو نہیں بدلیں گے، غلامی ہمارا مقدر رہے گی، بریانی کی ایک پلیٹ، قیمے کے نان، صرف ووٹ کے حصول کے لئے انکم سپورٹ پروگرام، راشن کارڈجیسے سطحی کاموں سے اب زیادہ دیر تک بہلاوا نہیں دیا جا سکتا۔ نئی نسل کے سامنے اب کوئی ایسا رول ماڈل نہیں ہے، لیڈر شپ کا قحط الرجال جیسا معاملہ ہے، معاشرے میں بے چینی بڑھ رہی ہے اوپر سے ایسی میڈیا کوریج کہ بس سب ملیا میٹ ہو جائےگا، سپریم کورٹ کے فیصلے ایک فرد واحد کے لئے رول بیک کئے جائیں گے، آتے ہی ان کو تزک واحتشام کے ساتھ اقتدار کاسنگھاسن پیش کر دیا جائے گا، معافی بادشاہ سلامت سے الگ مانگی جائے گی۔

اور پوری قوم کو اسی پرانی تنخواہ پر کام کرنے کے لئےکہا جائے گا اور ان کو اپنا ایجنڈا امیر المومنین بننے کا پورا موقع دیا جائے گا، خدارا اس ملک سے بہت کھلواڑ ہو گیا ہے، یہ صیح کہ یہ خطہ غلامی کی پیداوار ہے، غلام ابن غلام اور شخصیت پرستی خون میں رچی بسی ہے، حضرت علیؑ کا قول ہے، کہ میں نےاپنے ارادوں کی ناکامی سے اپنے رب کو پہچانا ہے، یاد رکھیں انسان ایک اپنا پروگرام ترتیب دیتا ہے، ایک طاقت ایسی ہے، جسکا اپنا ایک پروگرام ہوتا ہے اور وہی حتمی ہوتا ہے۔ نظریہ ضرورت اور قومی مفاد کا درس دینے والوں سے گذارش ہے، کہ آئے دن وہی سکرپٹ لکھنے سے بہتر اس ملک کو ایک بادشاہی ریاست کا درجہ دے دیا جائے اور اسی خاندان کو بادشاہت عطا کر دی جائے، کیونکہ اب ان کی تیسری نسل بھی حکمرانی کے لئے تیار ہے۔

ایسا جمہوریت میں نہیں بادشاہت میں ہی ہوتا ہے، عوام تو پہلے ہی غلامی کا طوق گلے میں پہنے بیٹھی ہے اور بڑے طم طراق سے ایک واری پھیر سانوں جوتیاں وہیں سے مارنی سٹارٹ کر دیں، جہاں سے آنجناب چھوڑ کے گئے تھے۔ ہم اس رعایا کی طرح ہیں جنہوں نے اپنے بادشاہ سے دست بدست درخواست کی تھی، کہ حضور پل پر جوتیاں مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے کیونکہ وہاں وقت بہت لگ جاتا جوتیاں کھانے میں، کہتے ظلم حدسے بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے، اب اگر نظریہ ضرورت اور قومی مفاد کی آڑ میں مقتدر حلقوں نے ظلم ڈھانے کی ٹھان لی ہے توٹک ٹک کی آواز آنا بھی شروع ہو گئی ہے، شاید یہ ایران کی طرز کے انقلاب کی نہ ہو؟

Check Also

Ban Bas, Riyasat Ho Maa Jaisi

By Amir Khakwani