Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Naqis Mansooba Bandi

Naqis Mansooba Bandi

ناقص منصوبہ بندی

ملک میں کچھ عرصہ سے خشک سالی کی سی کیفیت تھی۔ پانی کی کمی۔ زیر زمین پانی کی سطح روز بروز کم ہو رہی تھی۔ ہمارا ازلی دشمن ہمارے حصہ کے پانی پر روک لگا رہا تھا اور ڈیم پر ڈیم بنائے جا رہا۔ ابھی بھی وہ ایک سوچے سمجھے منصوبے پر گامزن ہے کہ اس ملک کی زراعت کو ختم کر دیا جائے۔ جو کہ اس ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان ایک اپنا پلان بناتا ہے لیکن ایک پلان قدرت کی طرف سے ہوتا ہے۔ ہوتا ویسے ہی ہے جیسے قدرت چاہتی ہے۔

جب پہلے سیلاب آتے تھے تب بھی کسی بھی حکومت نے سیلاب یا بارشوں سے ہونے والے نقصانات پر کوئی جامع پالیسی نہیں اپنائی۔ جب بھی کبھی ایسا موقع آتا ہے۔ سب ایک ہی ادارے کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یا ہر ضلع کے ذمہ داران ایسی صورتحال بنا دیتے کہ فنڈ حاصل ہوں اور اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو سکے۔ مطلب وہ بھی اس حق میں نہیں کہ کوئی ایسی ٹھوس منصوبہ بندی کریں کہ آئندہ ایسی صورتحال نہ بنے۔

کراچی کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ ایک ہلکی سی بارش کراچی کا نظام درہم برہم کر دیتی ہے۔ راولپنڈی کا نالہ لئی ہر سال اپنا جلوہ دیکھا جاتا ہے۔ لاہور میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ کیا ایسا نظام کراچی میں بھی ممکن بنایا جا سکتا؟ کیونکہ کراچی میں پانی کے حوالے سے بہت سارے مسائل ہیں۔ لاہور جیسا منصوبہ بنا کر کراچی میں پانی کی کمی کو کسی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنانےکے لئے بھی کام کیا جا سکتا ہے۔ گو کہ یہ ایک مہنگا منصوبہ ہے لیکن دوست ممالک کے تعاون سے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور چلایا جا سکتا ہے۔ گوادر میں ترقی کا شور بہت سن رہے ہیں۔ لیکن صاف پانی ناپید ہے۔ آنے والے وقت میں آبادی کو پانی کی فراہمی کیوں کر ممکن ہو سکے گی۔ اور ترقی کا خواب کیسے پورا کیا جا سکے گا؟

بہت ضروری ہے کہ جلد از جلد ملک کے تمام بڑے شہروں میں زیر زمین لاہور کی طرح بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا جامع منصوبہ بنایا جائے۔ تاکہ جو پانی کی کمی کی بازگشت سنائی دیتی ہے اس کی روک تھام ہو سکے۔ بارش تو قدرت کی طرف سے رحمت ہے۔ سیلاب کا آنا بھی قدرتی عمل ہے۔ زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن ملک کے کامیاب لیڈر وہی ہوتے جو اپنی آنے والی نسل کی بہتری کے لئے کام کرتے ہیں۔

اس کے لئے ایک مخصوص سوچ، مستقل مزاجی اور قوم میں شعور بیدار کرنے کی اضافی خصوصیات ہوتی ہیں۔ بد قسمتی سے ہمیں لیڈر نہیں سیاستدان ملے جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔ ملکی مفادات کو جوتی کی نوک پر رکھا آج بھی آپ ان سیاستدانوں کی پریس ٹاک سن لیں۔ ملکی حالات کس نہج پر جا رہے کسی کو احساس نہیں۔ ذاتی لڑائیوں اپنی اپنی اناؤں کے اسیر لوگ ایک دوسرے کے لتے لے رہے ہیں یا صرف ووٹ پکے کرنے کے چکر میں فوٹو سیشن کر رہے ہیں۔

اس سے بڑی انسانی توہین کیا ہو سکتی کہ امداد کے نام پر پانچ پانچ کلو کے آٹے کے تھیلے تھماتے ہوئے فوٹو سیشن کیا جائے اور پھر اس کی تشہیر بھی کی جائے۔ کیا ایسا کرنا سب جائز ہے؟ ملک میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ہمیں چاہئے کہ سیلاب کے پانی کی گزر گاہوں پر بڑے بڑے تالابوں کا نیٹ ورک بنایا جائے اور بوقت ضرورت اس پانی کو زراعت کے لئے استعمال کیا جائے۔

بارشوں کی وجہ سے فصلوں میں پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس اضافی پانی کو ایک مخصوص تکنیک کے ذریعے زیر زمین پانی کے ساتھ ملا دیا جائے اس سے زیر زمین پانی کی سطح میں کمی واقع نہیں ہو گی اور فصلوں کا نقصان بھی نہیں ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ درخت اگائیں تاکہ بارشوں کا سسٹم بنا رہے۔ درخت سیلاب کے آگے بند باندھنے کے بھی کام آتے ہیں۔

دشمن تو ہمیں بغیر جنگ کئے پانی بند کر کے ہمیں گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کر رہا ہے۔ لیکن قدرت چاہتی ہے کہ ہم پانی کو محفوظ رکھنے اور ضائع ہونے سے بچائیں قدرتی آفات کبھی بھی کہیں بھی آ سکتی ہیں۔ پر ان کو مثبت انداز میں ایک پلاننگ کے ذریعہ ان نقصانات پر قابو پایا جا سکتا۔ اس کے لئے ایک وژنری قیادت کی ضرورت نہ کہ ان موجودہ شعبدہ باز اور جگادری لوگ جو اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔

ہمیں قدرت کی طرف سے بارش کو رحمت سمجھ کے قبول کرنا چاہئے۔ زحمت انتظامیہ اور ہم لوگ جو پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کر دیتے ہیں، بنا دیتے ہیں۔ جب تک پانی کے راستے میں ہم چھوٹے چھوٹے ڈیم نہیں بناتے اور ان کو باہمی مربوط نہیں کرتے ایسے ہی بارشیں اور سیلاب آتے رہیں گے اور کبھی ہم پانی کی کمی کا رونا روتے رہیں گے۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail