Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Nai Jehat

Nai Jehat

نئی جہت

کسی قوم پر یا انفرادی سطح پر کوئی بھی آزمائش آتی ہے۔ تو اپنے ساتھ کچھ مثبت پہلو بھی لاتی ہے۔ جیسا کہ کرونا کے بعد کی دنیا تبدیل ہوگئی۔ کچھ نئی جہتیں دریافت ہوئیں۔ کچھ کاروبار جو ایک ہی ڈگر سے کافی عرصے سے چل رہے تھے۔ ان میں جدت آ گئی۔ سب سے بڑھ کر قدرت نے اپنا آپ منوایا۔ جو نقاب یا حجاب کا مذاق بناتے تھے۔ انہی لوگوں کو کیا چھوٹا بڑا سب کو چہرہ ڈھانپنا پڑ گیا۔ جو لوگ ابابیل کے ہاتھوں ہاتھیوں کی ہلاکت پر سوال اٹھاتے تھے ایک چھوٹے سے وائرس نے ساری سائنس ساری ٹیکنالوجی کو لگام ڈال دی۔

شعبہ تعلیم میں ہمارے ملک میں ایک ادارہ بذریعہ خط و کتابت درس و تدریس کا کام کر رہا تھا۔ لیکن اس کو وہ مقبولیت نہیں ملی اور اس کی افادیت اتنی مسلمہ بھی نہیں ہے۔ کرونا کے ایام میں تعلیم کے شعبے میں ایک نئی جدت آئی وہ تھی آن لائن کلاسز اور یہ ایک وسیع پیمانے پر کی گئی جس سے ایک نئی سوچ نے جنم لیا کہ ہمارے ملک میں پہلے ہی شرح خواندگی خطے کے دیگر ممالک سے کم ہے اور ہم اس شرح خواندگی کو بڑھانے کے لئے آئے روز نئے تجربات کرتے رہتے ہیں لیکن اس کا کوئی کماحقہ نتیجہ نہیں نکل رہا ہے۔

اگر ہم آن لائن کلاسز کو بذریعہ قانون سازی لاگو کر دیں تو ہم شرح خواندگی کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ کافی پیچیدگیوں سے بھی نکل سکتے ہیں۔ جیسا کہ گرمی سردی کی چھٹیوں کا معاملہ۔ ٹریفک کے مسائل خصوصاََ اسکول کے جانے اور واپس آتے وقت سڑکوں پر اک اژدہام، فیول کی بچت ملک اکانومی کو سکھ کا سانس آئے گا۔ گاڑیوں کے دھوئیں سے جو آلودگی کا سامنا وہ کم ہو جائے گا۔ اساتذہ کی تعداد محدود ہو جائے گی ان کی تنخواہ سے ملکی خزانے پر جو بوجھ وہ کم ہو جائے گا۔ کلاسز میں جو کئی کئی سیکشن ان کے لئے الگ کمرے اور ایک مخصوص تعداد کے بعد داخلہ نہ ملنا اس سے آزادی مل جائے گی۔ جو بچے تعلیم حاصل کرنا چاہتے لیکن گھریلو مجبوری یا کسی وجہ سے ریگولر وقت نہیں نکال سکتے وہ اپنی آسانی کے لئے کسی بھی وقت پر کلاس کو جائن کر پائیں گے اور اپنا تعلیمی سفر جاری رکھ سکیں گے۔

اب سوال اٹھے گا کہ جو اسکولز موجود ان کا کیا بنے گا ایک قانون سازی کے ذریعے تمام اسکولز کو اسپورٹس کمپلیکس میں تبدیل کر دیا جائے اور ان تمام طالب علموں کو اس کی ممبر شپ دی جائے ان سے اس مد میں فیس بھی لی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کوئی ممبر شپ لینا چاہے تو اس کو بھی دی جائے۔ جب سے موبائل ہماری زندگیوں میں آیا ہے۔ جسمانی فٹنس کے مسائل زیادہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ تن آسانی زیادہ ہوگئی ہے۔ قبضہ مافیا شہروں کے گراؤنڈ ہڑپ کر گیا ہے۔ بہت ضروری ہے کہ اس ملک میں کھیلوں کے گراؤنڈ آباد کئے جائیں۔ ایک ارشد ندیم کی بجائے دنیا کے ہر کھیل میں پاکستان کا ارشد ندیم جیسا ہیرو بنے۔

ایک اسکول کی عمارت اور جگہ ان تمام کھیلوں کا احاطہ کرتی ہے جو اولمپکس میں کھیلے جاتے ہیں۔ ہم انٹرنیٹ اور موبائل کے ذریعے اپنے ملک میں پیپر لیس نظام تعلیم کا جال بچھا سکتے ہیں۔ اگر کرونا کے دوران ہم اس طریقہ تعلیم کو اپنا سکتے ہیں تو مستقل بنیادوں پر کیوں نہیں۔ ویسے بھی اب پوری دنیا میں روائتی طریقہ تعلیم کی نفی ہو رہی ہے اب تعلیم ریسرچ بیس بن گئی ہے ہمیں بھی اب رٹو طوطے بنانا بند کرنا ہوگا۔ ایسی تعلیم جس سے زندگی میں کوئی عملی کام لیا جا سکےاس تعلیم کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔

سوشل میڈیا پر ایک کلاس میں روبوٹ کو دیکھایا گیا جو ہر سوال کا جواب دے رہا تھا۔ آنے والا وقت اسی ٹیکنالوجی کا ہے ہمیں جتنا جلد ممکن ہو اس لائن پر کام شروع کر دینا چاہئے۔ فرد ہو یا قوم جو نئی جدت، نئی جہت کے ساتھ خود کو تیار نہیں کرتی پیچھے رہ جاتی ہے۔ یقیناََ اس راہ میں کچھ منفی پہلوؤں بھی آئیں گے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کا حل بھی نکالا جا سکتا ہے۔ پہلا قدم اٹھانا ہی مشکل ہوتا ہے۔

اگر گورنمنٹ اس طرف آنے سے ہچکچا رہی ہو تو پرائیویٹ سیکٹر کو آگے آنا چاہئے۔ آن لائن اکیڈیمیز تو پہلے ہی اپنا رول ادا کر رہی ہیں۔ اسلام آباد کی ورچوئل یونیورسٹی پہلے ہی اس پر کام کر رہی ہے۔ اس کو چاہئے کہ اپنے کام میں مزید مہمیز لائے اور ملک کی شرح خواندگی کے مطلوبہ خواب کو پورا کرنے میں اپنا رول ادا کرے۔ کرونا جاتے جاتے ہمیں نئی جہت سے متعارف کروا گیا کرونا تیرا شکریہ۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam