Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Muhazzab Qaum

Muhazzab Qaum

مہذب قوم

کہتے ہیں کسی قوم کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنی ہو تو اس ملک کے ٹریفک کے نظام کو دیکھ کر کی جا سکتی ہے۔ دنیا کے نقشے پر بہت سی قوموں کا شمار مہذب معاشرے میں کیا جاتا ہے۔ ہمارےملک کا شمار ایٹمی ممالک میں ہوتا ہے۔ اسلامی ممالک میں ہم واحد ایٹمی قوت بھی رکھتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارا شمار مہذب اقوام میں نہیں کیا جاتا؟

ہم میں لا قانونیت، افراتفری، بد تہذیبی، دقیانوسیت، منقسم، منتقم مزاج معاشرہ کیوں بنتے جا رہے ہیں؟ بجائے اس کے کہ ہم اپنی کمی کوتاہیوں پر قابو پائیں۔ مسلسل ڈھلان کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ کہیں جا کر تو ہمیں رکنا ہو گا؟ ہمیں اس پس منظر پر غور کرنا ہو گا جو ہمیں اپنی منزل سے دور کر رہا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اس ملک میں دو نہیں ایک قانون ہے۔

پروٹوکول ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ اس کا علاج بہت ضروری ہے۔ عام آدمی سڑک پر جب وہ پروٹوکول دیکھتا ہے۔ تو اس کے منفی اثرات کے زیر اثر وہ بھی خود کو قانون سے ماوراء سمجھتا ہے۔ قوم کو ڈسپلن سکھانا اور مہذب بنانا ہے تو ابتدائی اسکول ایجوکیشن سسٹم میں تبدیلیاں نا گزیر ہیں۔ صرف اخلاقیات کے مضمون پڑھا دینا کافی نہیں۔ بطور طالب علم وہ ان مضامین کو صرف نمبر حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔

خود پر ان باتوں کا اطلاق کرنا اس کو یہ سسٹم نہیں سکھاتا۔ یہ ایک ہمہ جہت کوشش ہے۔ جس سے کبھی بھی رو گردانی نہیں کی جا سکتی ہے۔ ہمیں بچپن میں قطار بنائیں ایک سبق پڑھایا جاتا تھا۔ کہ کیسے چیونٹی ایک منظم طریقہ کار کے تحت کام کرتی ہے۔ اونٹ کیسے قطار در قطار سفر کرتے ہیں۔ قطار بنانے کے فائدے کیا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ لیکن فی زمانہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہم نے صرف امتحانی نقطہ نظر سے اس کو پڑھا معاشرے میں خود کو اس کی روح کے مطابق نہیں ڈھالا۔

اس میں دیکھا جائے تو اساتذہ کا رول اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ کہ وہ بچوں کی تربیت اس نہج سے کریں کہ وہ خود کو ایک مہذب ذمہ دار شہری بنائیں۔ میری نظر میں اگر ہم اپنے بچوں کو ٹریفک قوانین سے روشناس کروا دیں اور ان کو اس میں عملی طور پر شامل کر لیں تو بھی کافی حد تک معاشرے میں سدھار آ سکتا ہے۔ پرائمری سے دسویں کی سطح تک بچوں کو صرف بائی سائیکل چلانے اور لانے کی اجازت دی جائے۔

اس کے لئے اس لیول تک کے ٹریفک قوانین پڑھائے جائیں اس کا عملی امتحان ہو۔ جو بچہ میٹرک میں ٹریفک قوانین کا امتحان پیپر کی شکل میں اور عملی طور پر بھی پاس کرے اس کو موٹر سائیکل کا لائسینس بطور انعام بنا دیا جائے۔ کالج میں مزید دو سال اسی مضمون کو پڑھایا جائے جس میں فرسٹ ایڈ، ایمرجنسی کی صورتحال، ٹریفک کے بہاؤ کو کنٹرول کرنا، اسکاؤٹنگ، گرل گائیڈ، ان سب کا ایک مشترکہ لازمی پیپر ہونا چاہئے جس کی کامیابی کے بعد ان کو ایل، ایچ، وی لیول کا لائسینس ایشو کر دیا جائے۔

اور اس بات کو بھی لازم کیا جائے جو طالب علم متعلقہ شعبوں میں جانا چاہتا ہو وہ لازمی میرٹ پر بھرتی ہو۔ (جیسا کہ ٹریفک پولیس، 1122 یا کوئی بھی ایسا سول اداراہ)۔ اگر وہ طالب علم مزید ایجوکیشن لیتا ہے۔ ڈگری ہولڈر بنتا ہے تو اس کو ایچ، ٹی وی لائسینس بھی دے دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر انٹرنیشنل لائسینس کا بھی کوئی میکانزم بنا لیا جائے تو بہت سے نوجوان بیرون ملک جا کر باعزت روزگار کما سکیں گے۔ اور ملک کی معیشت میں بھی معاون ثابت ہوں گے۔

پر یہ سب نیک نیتی پروفیشنل ذمہ داری اور ایک ویژن جس میں ہر شہری کو ایک باوقار اور مہذب بنانا ایک جہاد سمجھ کر کیا جائے۔ ہمارا ٹریفک کا نظام ٹھیک ہو گیا تو سمجھو قوم ایک ٹریک پر آ گئی ہے۔ اب اس کا شمار ہجوم میں نہیں قوم میں ہو گا۔ قوم بھی وہ تصور ہو گی جو کہ ایک مہذب قوم ہوتی ہے۔

علامہ اقبالؒ کا شعر ہے۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali