Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Muashi Qatal

Muashi Qatal

معاشی قتل

اللہ کے عذاب کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ فرد ہو یا قوم اللہ پاک ان کی قوت فیصلہ چھین لیتے ہیں۔ ان کے دماغ ماؤف ہو جاتے ہیں۔ صیح اور اچھا فیصلہ کرنا ان کے بس میں نہیں رہتا۔ "جسے پنجابی وچ کہندے مت وج جانا" موجودہ حکومت بھی جب سے جیسے بھی اقتدار میں آئی ہے عوام کے لئے پریشانی کا باعث ہی بنی ہے۔ سب سے پہلا شکار کسان زیر عتاب آیا۔ پھر آئی ٹی والوں کی کم بختی آئی۔ اب تاجر ان کے اگلے نشانے پر ہیں۔ بظاہر تو یہ تاجر دوست اسکیم کے بڑے بڑے اشتہار دئیے جا رہے ہیں۔ حقیقت میں یہ تاجر دشمن اسکیم ہے۔

اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ ریاستیں عوام کے ٹیکس سے ہی چلتی ہیں۔ اگر عوام کی رائے لی جائے تو ہر بندہ یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ بلواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کو کسی نہ کسی مد میں ٹیکس کی ادائیگی کرتا ہے اور یہ دعوی غلط بھی نہیں ہے۔ پھر ہمیں باریک بینی سے مشاہدہ کرنا ہوگا کہ اصل مسئلہ کہاں پر ہے؟

اصل مسئلہ آپ کی ایف بی آر میں ہے۔ انہوں نے ایسے ایسے قوانین پاس کروا رکھے ہیں کہ جس کی جب چاہیں پگڑی اچھال دیں اور جب چاہے معزز بنا دیں۔ یقیناََ اس میں اچھے لوگ بھی ہوں گے لیکن تاجر طبقہ ان سے ہمیشہ شاکی رہتا ہے۔ وجہ ایک ہے ان کی ہراسمنٹ اور بلیک میلنگ تاجر کبھی بھی ان کا مقابلہ کسی بھی فورم پر نہیں کر سکتا۔ اگر حکومت تاجر برادری سے ٹیکس لینا چاہتی ہے۔ جو کہ ہر محب وطن تاجر بخوشی دینا بھی چاہتا ہے۔ تو ایف بی آر کی بد معاشی غنڈہ گردی بلیک میلنگ کو روکے۔

اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو بھی ٹیکس کے لئے اچھی اسکیمز لانچ کی گئی ایف بی آر کے بابوؤں کی طرف سی دی گئی سفارشات کی وجہ سے سبوتاژ ہوئیں ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ تاجر گورنمنٹ کو ڈائریکٹ ٹیکس دیں۔ وہ جان بوجھ کے ایسی کوئی نہ کوئی ہیچ بیچ میں رکھتے جس سے تاجر براداری بے چینی اور بے یقینی کی کیفیت میں آ جاتی ہے۔ جس سے نقصان ریاست کا ہوتا ہے لیکن جیت بابوؤں کی ہو جاتی ہے۔

اب اسی تاجر دوست اسکیم کی خدوخال دیکھ لیں بظاہر یہ اچھی اسکیم لیکن اس میں وہی ایف بی آر کی ننگی تلوار چھوٹے تاجر کے سر پر تان کر رکھ دی گئی ہے اور ایسی ٹیکس کی شرح لاگو کی ہے کہ تاجر اپنی دوکانیں بند کرنے پر مجبور ہو گئے اور یہ اندر کھاتے ایف بی آر اس پر بغلیں بجا رہی ہوگی کیونکہ یہ اسکیم ان کو وارے نہیں کھاتی وہ چاہتی کہ لوگ مجبور ہو کر ان سے مک مکا کریں۔ اس میں جو جو بھی شقیں شامل کی گئی ہیں وہ سب دیہاڑی پروگرام ہے۔

میری نظر میں اگر حکومت مخلص ہے تو سب سے پہلے عوام کی نظر میں اپنا اعتماد بحال کرے۔ عوام کے پیسے کو اپنے ووٹ بینک بڑھانے کے لئے استعمال کرنا فی الفور بند کرے۔ فضول خرچی نمودونمائش پر پیسہ ضائع نہ کیا جائے۔

پوری دنیا میں یہ اصول کارفرما ہے کہ اپنے خرچے کم کرکے اپنی آمدنی میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ بے تکے محکمے اور اضافی بے تکی نوکریاں یہ وہ سوراخ ہیں جن سے ریت ہمیشہ گرتی رہتی ہے۔ جب جہاز ڈوب رہا ہو تو اضافی وزن گرایا جاتا ہے۔

ٹیکس کی شرح بڑھانے کی بجائے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے اور ٹیکس کی شرح اتنی مناسب ہو کہ ہر بندہ بخوشی اپنا ٹیکس گورنمنٹ کے خزانے میں جمع کروائے نہ کہ ٹیکس کی شرح اتنی زیادہ ہو اور اوپر سے ایف بی آر کے پاس اتنے اختیارات کہ وہ دیہاڑی پروگرام بن جائے۔

عام دکان دار طبقہ زیادہ خواندہ نہیں ہوتا بہت ضروری ہے کہ ان کو وکیلوں اور ایف بی آر کے چنگل سے آزاد کیا جائے۔ گوشواروں کے چکر میں الجھا کر بھی بلیک میلنگ کمال کی ہوتی ہے۔ شرطیہ کہتا ہوں دکان دار تاجر کو آپ ایف بی آر کے عتاب سے بچا لیں اور یہ فیصد فارمولوں سے نکال دیں۔ یہ تاجر آپ کو آئی ایم ایف پرگرام سے باہر نکال دیں گے۔ ان پر اعتماد کرکے تو دیکھیں۔

کاغذات تیار کرنا ان کو جمع کروانا اس کے لئے ایک وکیل کی خدمات لینا ایک چھوٹے تاجر کے لئے جان لبوں پہ آجانے والی بات ہے۔ جدھر ہر وقت خوف کے سائے منڈلاتے ہوں وہاں پر تجارت نہیں پنپ سکتی اور ہر اس ریاست نے ترقی کی ہے جنہوں نےکاروبار کرنے میں آسانیاں پیدا کی ہیں۔

ہمارے ہاں قدم قدم پر رکاوٹ ہے اتنے محکمے ملوث ہوتے ہیں اور ہر محکمہ کا کرتا دھرتا یہی کہتا ہےکہ پہلے میرا سوچو، تاجر دوست اسکیم اگر کامیاب کرنی ہے تو تاجروں کے تحفظات کو دور کرنا بہت ضروری ہے اور اس کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔

تاجروں کو تین کیٹیگری میں رکھنا بہتر فیصلہ ہے لیکن ٹیکس ساٹھ ہزار ایڈوانس ہر مہینے لینا زیادتی ہے۔

اس کا آسان حل یہ کہ جدھر بجلی کے بلوں میں اتنی بھر مار ہے ایک ٹیکس کا خانہ اور سہی اس سے دیہاڑی پروگرام بھی ختم ہو جائے گا ٹیکس بھی حکومت کے خزانے میں ڈائریکٹ چلا جائے گا وکیلوں کی جنجھٹ گوشوارے بے جا قوانین سے جان چھوٹ جائے گی ایک فیصلے سے کرپشن کو بھی روک لگ جائے گی۔

ہر بازار کی تاجر یونین کے مشورے سے تینوں فارمیٹ کا ایک فکس ٹیکس نافذ کر دیا جائے جو ہر تین ماہ کے بعد کمرشل بل میں لگ کر آ جائے اور تاجر باآسانی وہ ٹیکس ادا کر دے۔

اس میں آنے والے مسائل کے لئے ون ونڈو آفس ہو جو فوری اور موقع پر اس معاملے کو حل کر دے۔ ہر تاجر بخوشی حکومت سے تعاون بھی کرے گا اور حکومت کا پہیہ بھی چلنے لگے گا۔

زراعت کے بعد یہ چھوٹا دکاندار ہی ملک کی معشیت میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

ٹیکس میں آسانی، آٹومیشن، پیپر لیس، ایف بی آر ادارے کی بیجا مداخلت ان سب عوامل پر ٹھنڈے پیٹوں غور کریں تو معشیت میں جان پڑ سکتی ہے۔ اگر حکومت ان بابوؤں کے بنائی گئی سفارشات پر قانون سازی کرتی رہی تو رشوت کرپشن کا بازار گرم ہوگا حکومت کا خزانہ خالی کا خالی رہ جائے گا۔

تاجروں کی 28 اگست کی ہڑتال کو انتباہ سمجھیں مخلوق خدا بہت زچ ہے۔ ان کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔

بجلی کے بلوں میں جس طرح ٹیکس لئے جا رہے ان سب کو بھی ایڈریس کرنا ضروری ہیں عام بندہ ان ٹیکسز کو نہیں سمجھ سکتا جس سے بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ٹیرف اور پرسینٹیج کے گورکھ دھندوں سے نجات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ خلق خدا کسی مسیحا کا انتظار کر رہی ہے۔

یہ سب تجاویز چھوٹے تاجر کے تحفظ کے لئے دی گئی ہیں۔ مینوفیکچرنگ کا شعبہ اور کارپوریٹ سیکٹر ایف بی آر کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz