Mir Jafar, Mir Sadiq Kon Thay?
میر جعفر میر صادق کون؟

موجودہ سیاسی صورتحال پر ہر کوئی اپنے تئیں کوئی نہ کوئی سازشی تھیوری بیان کر رہا ہے۔ واضح جواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے، کنفیوژن پیدا کرنے میں سوشل اور الیکٹرونک میڈیا ہیش ہیش ہے۔ سیاست دانوں کی آنی جانی دیکھنے کے قابل ہے۔ ان کی میل ملاقات ان کا باہم بغل گیر ہونا ان کے چہروں پرجب نظر جاتی ہے۔ تو ایک ابکائی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ان کی موجودہ بیانات کوجب ان کے پرانے رویہ پرانے بیانات کاباہم موازانہ کیا جاتا ہے۔ تو اس معاشرے کی اقدار کی تصویر کھل کے سامنے آ جاتی ہے کہ سیاست میں دل نہیں ہوتا ساتھ ساتھ جس معاشرے میں ہم جی رہے ہیں ان کی سیا ست میں اخلاقیات بھی نہیں ہوتی۔
اگر ہم غور کریں کہ اپوزیشن اگر چاہتی ماضی میں پارلیمنٹ میں ایک سے زائد مواقع پر حکومت کو چلتا کر سکتی تھی۔ سیاست میں کیونکہ ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے۔ اب خدا جانے کہ کیوں اپوزیشن نے اس مواقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ ایسے ایسے متنازع بل پر پوری کی پوری اپوزیشن لیڈر شپ اسمبلی سے غائب نظر آئی۔ جہاں پر عوام چاہتی تھی کہ ملک اور عوام کے مفاد میں حکومت کا ہاتھ قانون سازی سے روکا جائے۔ تب تو یہ لیڈر جانے انجانے میں حکومت کی مدد کرتے رہے۔
سوچنے والی بات کہ اب اچانک سے ایسا کیاہو گیا کہ بس اب بہت ہو گیا اب عدم اعتماد ہی واحد حل ہے۔ جیسے پہلے کہا کہ ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ ایک ہمارے اپنے ملک کی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ایک بیرونی اسٹیبلشمنٹ بھی ہے جو کہ تھرڈ ورلڈ کنٹری جیسے ممالک میں بہت موثر ہوتی ہے۔ ہمارا ملک بھی انکے کارندوں سے بھرا پڑا ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ جب چاہتی ہے کسی بھی غریب ملک کے سربراہ کو تخت نشینی سے اتار سکتی ہے۔
موجودہ سیاسی کھیل میں بھی بیرونی عوامل کا ہاتھ زیادہ نمایاں نظر آرہا ہے۔ کیونکہ جب سے روس کے دورے کی بازگشت سنائی دینی شروع ہوئی ہے۔ ایک طاقت ور ملک کا سفارت خانہ متحرک نظر آیا ہے۔ جس کے سفیر نے ملک کی اپوزیشن لیڈر سےملاقات کی تب حیرانگی تھی کہ ان سے ملا قات کا مقصد آخر کیا ہو سکتا ہے؟ اب وہ دھندلی پکچر کسی حد تک واضح ہو گئی ہے۔ ہمارے ملک کے وزیر اعظم کا دورہ روس کچھ بین الاقوامی قوتوں کو ہضم نہیں ہو پا رہا۔
اب انہوں نے اس ملک میں موجود میرجعفر میر صادق ڈھونڈ کر اس ملک کے وزیر اعظم کے خلاف دورہ روس سے پہلے ایسی ہوا قائم کر دی ہے کہ جو وزیر اعظم آپکےملک کا دورہ کر رہا ہے وہ اتنا طاقتور نہیں ہے۔ کہ پتہ نہیں کب اس کی چھٹی ہو جائے گو کہ معاہدے حکومتوں کے درمیانہوتے ہیں پر ایک کریڈیبلٹی ہوتی ہے جو کہ موجودہ اپوزیشن نے جانے انجانے میں وزیر اعظم کی کافی کم کر دی ہے۔ اور ہم لوگاپنے ملک کہ خود ہی دشمن ہیں ہمیں کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ کہ اتنا اہم دورہ جس سے ملک کی انرجی کرائسسس حلہونے جا رہے ہیں۔
ہم تحریک عدم اعتماد عدم اعتماد کھیل رہے ہیں۔ اس ملک کی اس سے بڑی اور کیا بدقسمتی ہو سکتی ہے۔ عدم اعتماد کا ایشو دورہ روس کے بعد بھی اٹھایا جا سکتا تھا۔ ایسی بھی کیا جلدی آن پڑی تھی۔ پر اس سے ملک کے موجودہ میر جعفرمیر صادق کی پہچان شعور رکھنے والوں کو بخوبی ہو گئی ہے کہ کون کس کے پے رول پر ہے۔ عوام نے ابھی بھی ان کو نہ پہچانا توخسارہ ہی خسارہ ہے۔ اور یہ قوم غلام ابن غلام ہی رہے گی۔ ہم کب تک اغیار کے ہاتھوں میں کھیلتے رہیں گے۔ ایسی ہیصورتحال سےسابقہ حکومت کو بھی واسطہ پڑا تھاجب چائنہ کے وزیر اعظم کا دورہ ملتوی ہوا تو اس کو بھی ایک شاخسانہ ہی سمجھا جاتاہے۔ شاید اسی کو مکا فات عمل بھی کہتے ہیں؟
پر قوم کو اب یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہمیں اپنی صفوں میں چھپے ہوئے میر صادق میر جعفر پہچا ننے ہوں گے اور ان کو نکالنا ہو گا۔ بلکہان کا محاسبہ بھی بہت ضروری ہے۔

