Mazloom Ki Aah
مظلوم کی آہ

عمومی یہی دیکھا گیا ہے کہ جب کسی حکومت کا چل چلاؤ کا موسم ہو تو بیوروکریسی ایسے فیصلوں پر عمل درآمد شروع کروا دیتی ہے جس سے عام آدمی براہ راست متاثر ہوتا ہے اور جب اس سے اس کی روزی چھین لی جاتی ہے تو اس کے پاس سوائے بد دعائیں دینے کے اور کچھ رہ نہیں جاتا ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے ہر حکومت نے اپنے تئیں انکروچمنٹ ختم کرنے کی حتیٰ الوسع کوششیں کی ہیں۔ لیکن رزلٹ ہمیشہ اس کے الٹ آتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
کبھی کسی نے اس پر غور و خوض کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نہ ہی اس کا کوئی پائیدار حل ممکن ہو سکا ہے۔ دیکھا جائے تو جو محکمہ اس انکروچمنٹ کو ختم کرنے کے لئے بنایا گیا ہے اس کے عملے کی ملی بھگت اور رضا مندی کے بغیر ممکن نہیں۔ کہ کوئی ایک اینٹ بھی اضافی لگا سکے۔ اس انکروچمنٹ کو روکنے کے لئے پہلے اس کرپشن پر روک لگانا ہوگی جو عملے کی جیبوں میں روزانہ یا مہینے کی بنیاد پر جا رہا ہوتا ہے۔ ایسے آپریشن کے بعد فالو بیک آپ نہیں رکھا جاتا جس وجہ سے ہم پھر وہیں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ جہاں سے چلے تھے فرق صرف اتنا پڑتا کہ اس جگہ پر کوئی نیا چہرہ آ جاتا یا پرانا ہی نئے ریٹ پر مک مکا کرکے اپنی روزی روٹی کا جگاڑ لگا لیتا ہے۔ یہی مشق ہم دیکھتے آ رہے ہیں۔
کوئی بھی ناجائز تجاوزات کے حق میں نہیں لیکن اس کے لئے پہلے اچھی منصوبہ بندی حکمت عملی مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔ لوگ اس طرح کے آپریشن کو سیاسی سٹنٹ سمجھتے ووٹ پکا کرنے کا اسی کی دہائی کا طریقہ سمجھتے کہ محلے کی سطح پر عام آدمی کی دوڑ مقامی سیاسی حکومت کے کارندے تک ہوتی ہے جو ان کے لئے سفارش کرکے آنے والے الیکشن کے لئے ووٹ پکا کر لیتا ہے۔
اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہئے کہ جب ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا جائے تو متعلقہ محکمے کے افسران سے باز پرس ہو کہ یہ سب ان کی ناک کے نیچے یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ ان کو سزا دی جائے جب تک متعلقہ محکمے کے ذمہ داران کو نامزد نہیں کیاجائے گا یہ سلسلہ شیطان کی آنت کی طرح چلتا رہے گا۔
حکومت کو غور کرنا چاہئے کہ جو لوگ ریڑھی وغیرہ لگا کر روزی کما رہے بجائے انکروچمنٹ ملازمین کے جیبوں میں پیسے جانے کے حکومت ان کو اپنے پاس رجسٹرڈ کر لے یہ کام صرف ایک ایپ سے ہو سکتا ہے اور ماہانہ ان سے آن لائن کرایہ وصول کر لے پر کرایہ اتنا مناسب ہو کہ وہ ریڑھی والا با آسانی اور خوشی خوشی حکومتی خزانے میں جمع کروائے اس کے پاس اس ماہ کا اجازت نامہ ہوتا کہ کوئی اس کو تنگ نہ کرے۔ "ریاست تو ماں کی مانند ہوتی ہے نہ کہ جلاد"۔
قبضہ مافیا ایک الگ موضوع ہے۔ اس کے لئے ایک الگ سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ کیونکہ لاہور کے مال روڈ کے تاریخی فٹ پاتھ پر موٹر سائیکل پارکنگ کو کوئی مائی کا لال آج تک نہیں روک پایا اس سے اس مافیا کی طاقت کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔
ہمیں چاہئے کہ پہلے ایک شہر کو منتخب کریں اس کا پورا پلان بنایا جائے تاجر برادری ہر مکتبہ فکرکے لوگوں کو این جی اوز کو اعتماد میں لیا جائے۔ متبادل پلان دئیے جائیں۔ اس کے بعد اس شہر کا نقشہ تبدیل کیا جائے۔
جو بہت ضروری وہ ان کھمبوں اور تاروں کے گچھوں سے نجات دلانا اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ ہمیں زیر زمین بجلی کے نظام پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے تجارتی مراکز پر اچھی پلاننگ کے ساتھ پارکنگ کا نظام وضح کروانے کی ضرورت ہے۔ تجارتی مارکیٹیں کوئی جی ٹی روڈ یا موٹر وے کا حصہ تو نہیں ہوتی کہ ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لئے گاہکوں کی موٹر سائیکلیں اٹھوا لی جائیں یا کھڑی گاڑیوں میں سوئے کے ساتھ ٹائر پنکچر کئے جائیں۔ ایسے اقدامات سے گاہکوں کی حوصلہ شکنی ہوتی اور کاروباری سرگرمی ماند پڑ جاتی ہے۔ پہلے تجاتی مراکز پر پارکنگ کا نظام بنایا جائے پھر قانون پر عمل درآمد ہو نہیں تو ایسے سطحی کام اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔
ہمیں اپنے بچوں کے بنیادی سلیبس میں ایسے مضامین شامل کرنے چاہئے بچوں کی ذہن سازی اس نہج پرکی جائے کہ آنے والے وقت میں مفید شہری بن سکیں۔ ان کو احساس ہو کہ ہمیں اپنے ملک کو کیسے صاف ستھرا رکھنا ہے۔
غریب ریڑھی بان کا نقصان کرکے کسی گھر کے سامنے گرین ایریا کو گرا کر ہم سرخرو نہیں ہو سکتے ایسا کرکے ہم اگر سمجھیں کہ ہم اپنے ملک کو صاف ستھرا بنا لیں گے ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔
عام آدمی سے موجودہ حکومت کے بارے میں رائے لی جائے تو وہ نکو نک ہوا پڑا ہے وہ سمجھ رہا ہے کہ حکومت کا بس چلے تو کہے کہ سانس بھی ہم سے پوچھ کے لو جب ایسی صورت حال ہو تواچھے مستقبل کے حوالے سے ہم زیادہ پر امید نہیں ہو سکتے۔
مظلوم، عام اور غریب آدمی کی آواز نقارہ خدا ہوتی ہے۔ مظلوم کی آہ سیدھی عرش تک جاتی ہے۔
ناجائز تجاوزات کی آڑ میں غریبوں کی آہ لینے سے بچنے کا یہی طریقہ صائب ہے کہ پہلے ان کو متبادل یا قانونی تحفظ دے کر پھر یہ سب کیا جائے اس کے بعد فالو آپ رکھا جائے تب ہم کچھ بہتری کی امید کرسکتے ہیں۔

