Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Kisan Dushmani, Mulk Dushmani

Kisan Dushmani, Mulk Dushmani

کسان دشمنی، ملک دشمنی

زراعت ہمارے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی بھی حکمران نے کبھی بھی زراعت کو اہمیت نہیں دی۔ حالانکہ یہ ایک ایسا شعبہ ہے کہ اگر صرف اسی کو ہم ایک مستقل بنیاد پر کوئی پالیسی دیتے تو کبھی بھی اغیار کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے پڑتے۔ زراعت سے صرف نظر کرنا اصل میں کسان سے صرف نظر کرنا ہے۔ کسان خوش حال ہوگا تو ملک خوشحالی کا سفر طےکرے گا۔

یہ ملک کی بدبختی اور غلط پالیسیوں کا نتیجہ کہ جو خطہ سونے کی چڑیا کا درجہ رکھتا تھا۔ پراپرٹی مافیا نے کسان کو یرغمال بنا کر زرعی زمین پر عمارتوں کے انبار لگا دئیے ہیں۔ وجہ کسان مالی مشکلات کا شکار تھا۔ پیسے کی وقتی چمک نے آنکھوں کو چندھیا دیا اور اپنی ماں بولی زمین کو بیچ دیا۔ اور یہ بھی حقیقت کہ وراثتی جائیداد جب تقسیم در تقسیم ہو کر کم رہ گئی تو بیچنا پڑی۔

ایک فلمی ڈائیلاگ تھا لیکن حقیقت پر مبنی کہ کسان کے گھر بیٹا پیدا ہو تو ایک کھیت کم ہو جاتا ہے۔ شیخ کے گھر بیٹا پیدا ہو تو ایک دکان میں اضافہ" اس سوچ نے بھی زرعی زمین کی اہمیت کو کم کیا جس کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔ کہ ہمیں گندم کے لئے بھی اوروں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ جیسے جیسے سائنس نے ترقی کی منازل طے کی ہیں زراعت میں بھی جدت آ گئی ہے۔ لیکن ہم اپنے کسان بھائیوں کی خاطر خواہ تربیت نہیں کر پائے ہیں۔ ملک میں زیادہ تر چھوٹا کسان پایا جاتا ہے۔ ہم بات بھی چھوٹے کسان کی کر رہے ہیں۔ جاگیرداروں، وڈیروں کو ان مسائل سےکوئی لینا دینا نہیں جس سے عام کسان متاثر ہوتا ہے۔

جب پی ٹی آئی حکومت معرض وجود میں آئی تھی تو شیخ رشید صاحب نے اس وقت کے وزیراعظم کے گوش گزار کیا تھا۔ کہ اس ملک کو چینی مافیا نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ آپ چینی مافیا پر ہاتھ ڈالیں تبھی آپ حکومت کر پائیں گے۔ اس وقت یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی۔ لیکن جیسے وقت گزرتا گیا اس مافیا کی حقیقت آشکار ہوتی گئی اور کسی حد تک ان شوگر مل مالکان کی اجارہ داری لوٹ مار ملک کی اکانومی کے ساتھ کھلواڑ، جب چاہیں چینی کی قیمت اوپر نیچے کر کے حکومت کو بلیک میل کرنا یہ سب طشت از بام ہوا۔ پی ٹی آئی حکومت کو رخصت کرنے میں دوسرے عوامل کے ساتھ اس مافیا کا بھی ہاتھ شامل تھا۔

کسان گنا کاشت کرتا ہے۔ کیونکہ یہ پورے سال کی فصل ہوتی ہے۔ دوسری فصلوں کی نسبت اس پر زیادہ توجہ نہیں دینا پڑتی۔ محنت بھی کم لگتی ہے تو کسان اس فصل کو اگانے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ لیکن شوگر مافیا کسان کی اس کمزوری سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اپنے خفیہ ایجنٹ چھوڑے ہوتے ہیں جو چھوٹے کاشتکار کو گنے کا کم ریٹ دے کر گنا خرید لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ اتنا گنا نہیں رکھتا کہ وہ ڈائریکٹ مل تک گنا پہنچا سکے۔

پھر مل کے اندر گنے کا بہاؤ اتنا سست کیا ہوتا کہ کئی کئی دن ٹرالیاں باہر کھڑی رہتی ہیں۔ ایسا جان بوجھ کر کیا جاتا کہ گنا سوکھ جائے اور وزن کم ہو جائے اس کا نقصان کاشت کار کو ہوتا ہے۔ پھر گنے کی رقم کے حصول کے لئے بینکوں کے دھکے الگ سے کھانے پڑتے ہیں۔ اس بار یہ ظلم بھی کیا گیا کہ ایک گنے کی وارئٹی جس کو خود مل مالکان نے کاشتکاروں کو متعارف کروائی جب وہ گنا ان کی ملز پر آنا شروع ہوا تو اس ورائٹی کے گنے پر دس سے بیس فیصد کٹوتی کرنا شروع کر دی۔

وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کا گنے کی قیمت تین سو کرنے کا اعلان ہوا ہوگیا۔ جب کٹوتی ہی اتنی ہونے لگی تو کسان تو اسی تنخواہ پر گزارہ کرنے پر مجبور ہے۔ ان سب کارٹل کا توڑ یہ ہے کہ شوگر انڈسٹری کو مزید وسعت دی جائے۔ زیادہ سے زیادہ شوگر مل لگانے کی آزادی دی جائے۔ یہ جو چند خاندان اس کاروبار پر اپنی اجارہ داری بنا چکے ہیں اس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے مقابلہ بازی کا رجحان زیادہ سے زیادہ شوگر ملز لگانے میں پنہاں ہے۔

شوگر پالیسی کو اوپن کر دینا چاہئیے۔ ملک میں زیادہ سے زیادہ چینی بنائی جائے اور اس کو دوسرے ممالک میں بیچ کر زرمبادلہ کمایا جائے۔ گنے کے علاوہ جن دوسرے ذرائع سے بھی چینی بنائی جا سکتی ان ذرائع کو بھی بروئے کار لانا چاہئے۔ ہمارے ملک میں چینی کے بڑے دانے کو پسند کیا جاتا ہے جب کہ دوسرے ممالک میں باریک چینی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ہمیں اس فرق کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔

جب چینی مہنگی اور نایاب ہوئی تھی تب ایک بندے نے فی کلو چینی کی لاگت چالیس روپے کے لگ بھگ بتائی تھی۔ اس بات میں کہاں تک صداقت کسی نے اس کو چیلنج نہیں کیا۔ بہتر یہی کہ جو لوگ اس انڈسٹری کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ چینی کی اصل لاگت کو عوام کے سامنے لے کر آئیں۔ تاکہ عوام کے اندر جو چینی مافیا کے خلاف لاوا پک رہا ہے، اس میں کمی آئے۔ اور یہ جو ہر سال کسان کا استحصال ہو رہا ہے اس پر روک لگائی جائے۔

ملز مالکان کو سبسڈی دینے کی بجائے کسان کو دی جائے تاکہ وہ بہتر ملک کی خدمت کر سکیں اور کبھی بھی زرعی زمین کو پراپرٹی مافیا کے ہاتھ بیچنے کا نہ سوچیں۔ اگر کسان کو اسی طرح بند گلی میں دھکیلا جاتا رہا اور پانی کی کمی اسی طرح ہوتی رہی تو بہت ہی بھیانک تصویر نظر آ رہی ہے۔ کاش کہ اس ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے والوں کی آنکھیں اس آنے والے حالات کی منظر کشی کو دیکھ سکیں۔ اور وہ آنے والی نسل کے لئے بہتر پاکستان دیکر جائیں۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan