Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Jungli Hayat Ka Tahafuz

Jungli Hayat Ka Tahafuz

جنگلی حیات کا تحفظ

اس زمینی کائنات میں قدرت کی طرف سے عطا کی گئ کینوس پر بکھرے ہوئے بیش بہا رنگ نظر آئیں گے۔ انہی میں سے ایک رنگ جنگلی جانوروں کی صورت میں اس قدرت کی بنائی گئی پینٹنگ میں موجود ہے۔ ذرا غور کریں کہ اگر کسی انسان کی بنائی گئی پینٹنگ پر موجود رنگوں کو ہم مٹانا شروع کر دیں تو کیا وہ پینٹنگ اپنی خوبصورتی برقرار رکھ پائے گی؟ جواب نفی میں ہے۔

قدرت نے کوئی بھی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی اس کا کوئی نہ کوئی مقصد مصرف ہوتا ہے۔ ہم اپنی لاعلمی میں یہ فیصلہ صادر نہیں کر سکتے ہیں کہ اس جاندار کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہئے۔ یورپین ممالک میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی حقوق دئیے گئے ہیں بلکہ بعض کیسز میں انسانوں سے بھی زیادہ فوقیت دی جاتی ہے۔

ہمارے ہاں تو انسان کا خون ہی بہت ارزاں ہے۔ کجا جنگلی حیات کو زیر غور لایا جائے۔ ہم نے تو اپنے ذاتی مفاد کے لئے جنگلات ہی ختم کر دئیے ہیں۔ جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے۔ ہم رہائشی کالونیاں درخت کاٹ کاٹ کر بنائے جا رہے ہیں۔ بغیر کسی پلاننگ کے نہ ہی آنے والی نسل کے لئے ہم کچھ چھوڑنے کو تیار ہیں اور نہ ہی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ جو کہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔

جس تیزی سے جنگلی حیات ختم ہوتی جا رہی خدشہ ہے کہ آنے والی نسل کو یہ جانور صرف تصویروں میں دیکھائے جائیں گے۔ جیسے آجکل ہمیں ڈائنو سار کے بارے میں دیکھنے، سننے، پڑھنے کو مل رہا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو شعور دینا ہوگا۔ ہمیں سانپ سے ڈرایا جاتا ہے۔ ہم ہر سانپ کو خطرناک سمجھ کے مار دیتے ہیں۔ حالانکہ کچھ سانپ کسان دوست ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو سانپ پکڑنے کی تکنیک سکھانی چاہئے اور یہ بھی کہ کون سی نسل خطرناک ہے۔

چائنا میں ایک وقت ایسا آیا کہ ان کی فصلوں کی پیداوار کم ہو گئ۔ جب ریسرچ کی گئی تو علم ہوا کہ قدرت کے طے شدہ اصول کے خلاف کام کیا گیا تھا۔ جو چرند پرند تھے یہ سب کھا کر ختم کر چکے تھے۔ وہ سائیکل جو نظام زندگی چلانے کے لئے ضروری تھا اس میں رکاوٹ پیدا ہوگئی تھی۔ انہوں نے دوبارہ سے چرند پرند امپورٹ کئے تب دوبارہ وہ سلسلہ بحال ہوا۔

موجودہ حالات ہمیں چائنا کے ماضی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ سائبیریا اور دوسرے ممالک سے آنے والے پرندے کم ہو رہے ہیں۔ خشک سالی بھی ایک وجہ ہے۔ اس سے زیادہ ہمارا بغیر پلاننگ کے اندھا دھند شوقیہ شکار بھی ہے۔ اس میں جنگلی حیات کے تحفظ کے ادارے کی کمزوری نظر آتی ہے۔

ہمارا قومی جانور مارخور اس کی نسل معدوم ہو رہی ہے۔

ریچھ اکثر قلندر قبیلہ کے لوگوں کے پاس دیکھنے کو بچپن میں نظر آ جاتا تھا۔ وائلڈ لائف کی سختی کی وجہ سے اب وہ بھی نظر نہیں آتا۔

ہرن کس کو پسند نہیں شاعر حضرات تو اس کے اعضاء کی مثالیں دیکر صنف نازک کی تصویر کو لفظوں میں ڈھالتے ہیں۔ وائلڈ لائف کی سختی بے معنی لگتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہرن فارم بنانے کی اجازت دی جائے شوقیہ پالنے کی اجازت عام ہونی چاہئے لیکن ادھر بھی دو قانون چلتے ہیں۔ اشرافیہ کے لئے ہرن کے گوشت کا حصول کچھ مشکل نہیں۔ تان صرف عام لوگوں پر ٹوٹتی ہے۔ جن معاشروں میں جانور، پرندے پالنے ان کا ہر طرح سے خیال رکھنے کا رواج عام ہے۔ وہاں برداشت، صلہ رحمی، تحمل، نرمی، میانہ روی کا کلچر ملے گا۔

ہمیں بھی اس نہج پر سوچنا چاہئے۔ صرف جنگلی حیات کو چڑیا گھر کی رونق بنا دینا کافی نہیں۔ ہمیں رولز میں نرمی کرنا ہوگی۔ لوگوں میں جنگلی حیات کا صفایا کرنے کی بجائے ان کے اندر صلہ رحمی پیدا کی جائے۔ جنگلی حیات کی نسل کو بڑھانے کے اقدامات کرنے چاہئے ان کو ان کا قدرتی ماحول دینا حکومت کی اولین ترجیح ہونا چاہئے۔ شوقیہ شکار پر پابندی لگا دینی چاہئے یا محدود اجازت اور زیادہ فیس لی جائے تاکہ ریونیو سے حکومت کو فائدہ ہو۔

گھروں میں پالنے، رکھنے کی اجازت دی جائے لیکن اس کے ساتھ اس امر کا خیال بھی رکھا جائے کہ اس جاندار کو قدرتی ماحول لازمی دیا جائے۔ 4 دسمبر کو جنگلی حیات کا عالمی دن منایا گیا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے ہمیں چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ اپنی نسل کو شعور دیں۔ خود بھی قدرت کے ان شاہکاروں کو پینٹنگ میں موجود رنگوں کو ختم نہ کریں کہ جس سے اس پینٹنگ کی خوبصورتی معدوم معلوم ہو۔

جس گھر میں جانور یا پرندہ رکھا جاتا ہے اس گھر کے بچے رحم دل بنتے ہیں جو کہ معاشرے میں امن اور سکون کے داعی ہیں۔ ہمیں اپنے معاشرے کو اگر معتدل بنانا ہے تو جنگلی حیات کو فروغ دینا ہوگا۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail