Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Inqilab Ki Dastak

Inqilab Ki Dastak

انقلاب کی دستک

انسان جس دھرتی میں پیدا ہوتا اس دھرتی کو ماں کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ایک غیرت مند انسان کبھی بھی اپنی ماں سے غداری کا نہیں سوچ سکتا ہے۔ پر ہمارے ہاں باوا ہی نرالا ہے۔ غدار کہنا اور اسلام سے خارج کر دینا یعنی کفر کا فتوی لگا دیناسب سے آسان مشغلہ ہے۔ اور آرٹیکل چھ اور انیس سو تہتر کے آئین کے تناظر میں مخالف فریق کو رگیدنا معمول بن چکا ہے۔ اور جو لوگ کل تک ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ کا ڈھول بڑی شدومد سے پیٹ رہے تھے۔ آج پھر ہاتھ باندھے پورے خضوع و خشوع کے ساتھ کھڑےہیں۔ اور انہی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

سمجھ دار عوام اس سارے کھیل تماشے کو باریک بینی سے دیکھ رہی ہے اور اچھی طرح سمجھ بھی چکی ہے کہ آزادی کی منزل ابھی دور ہے۔ جب تک ہمارے اندر میر جعفر میر صادق موجود ہیں اس ملک کی قسمت نہیں بدل سکتی۔

قوموں کی زندگی میں کٹھن حالات آتے ہیں اور اچھالیڈر اس قوم کو اس طغیانی سے بچا کر لے جاتا ہے۔ یہی اس کی لیڈر شپ کی کوالٹی کا مظہر ہوتا ہے۔ کوئی بھی لیڈر جو ڈرپوک ہو خوف زدہ ہو کنفیوژڈ ہو کبھی بھی قوم کو غلامی کے بھنور سے نہیں نکال سکتاخاص کر ایسے لیڈر جن کا اوڑنا بچھونا صرف پیسے کا حصول ہو یا پیسے سے پیار ہو وہ کبھی بھی ان طاقتوں کے سامنے کھڑا ہونے کی جسارت نہیں کر سکتا کیونکہ اس کو اپنے مالی معاملات کے کھو جانے کا اتنا خوف ہوتا ہے کہ وہ جی حضوری کو ترجیح دیتا ہے۔ غیرت نام کی چیز اس کے پاس سے نہیں گزرتی اس کا قبلہ کعبہ کوئی اور ہوتا ہے۔

موجودہ سیاسی صورتحال نے اس ملک کو ایک ایسے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ کہ عوام کو یہ سمجھنے اور فیصلہ لینے میں آسانی پیدا ہوگئی ہے کہ اس دھرتی ماں کے ساتھ مخلص کون ہے اور کون ہے جو اس دھرتی ماں کے ساتھ اغیار کے کہنے پر بے حرمتی کامرتکب ہو گا۔ ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ عدم اعتماد کا کیا نتیجہ جو بھی نکلتا پر جو سازش بیرونی ایما پر کی گئی اورہمارے لیڈران جانے انجانے میں اس کا حصہ بن گئے اور اوپر سے ان بیرونی قوتوں کے حق میں دلائل دینا شروع کیا اور ان نامورصحافیوں نے بھی اپنا حق نمک ادا کرنا شروع کیا تو محب وطن لوگوں کے کان کھڑے ہو گئے ہیں۔

اس ساری صورتحال میں ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ اب فیصلہ کن مرحلہ آ گیا ہے کہ صیح غداروں کی پہچان کی جائے اور جو آئین میں سزا درج ہے اس قانون کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ اشرافیہ ہی ہمارے نصیب میں کیوں ہے؟ اور وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ اس اشرافیہ سے نجات ایک انقلاب کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ قدرت نے ان کو بے نقاب کر دیاہے۔ اس انقلاب کے ٹائم بم کی ٹک ٹک صاف سنائی دے رہی ہے۔ بس ایک چنگاری بھڑکنے کی دیری ہے۔

لوگ ان نام نہاد اشرافیہ اور لیڈران سے تنگ آ چکے ہیں۔ یہی وجہ کہ عمران کی انتہائی ناقص کار کردگی کے باوجود ان لوگوں کے اپنےذاتی اور بیرونی قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے اکٹھے ہونے کو اچھا نہیں جانا یہی بیانیہ ان کے لئے سیاسی قبرستان بن جائےگا۔ لوگ ان کی شکلیں حرکتیں اور ان کے اپنے آپ سے ذاتی مفاد کو سمجھ چکے ہیں کہ ان کی اس ساری مشق میں عوام کہاں ہیں؟

عوام ان کی ڈگڈگی سے اب تنگ آ چکے ہیں۔ اور مزید جیسے جیسے یہ ایکسپوز ہوتے جائیں گے عوام کے ہاتھ ان کے گریبانوں تک پہنچنا شروع ہو جائیں گے۔ کیوبا جیسا ملک اگر اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟

غریب عوام تو عادی ہو چکی مشکلات کو برداشت کرنے کی جان تو اس اشرافیہ کی نکلنی جو ان مشکلات کے عادی نہیں ہیں۔ وہیخوف ان کی آزادانہ خارجی پالیسی میں رکاوٹ ہے۔ جیسے جیسے یہ دوبارہ اکٹھے ہو رہے اور اپنے دانتوں کو تیز کر رہے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے اور یہی بے چینی انقلاب کے لئےراستہ ہموار کر رہی ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ اپنی صفوں میں موجود میر جعفر میر صادق نکال دئیے جائیں۔ نہیں تو عوام کے صبر کا پیمانہ چھلک جائے گا۔ مجھے تو انقلاب کی دستک صاف سنائی دے رہی ہے۔

Check Also

Shirini Khori Aur Khuda Fehmi

By Mojahid Mirza