Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Imtehan

Imtehan

امتحان

زندگی امتحانات سے عبارت ہے۔ قدرت ہمیشہ امتحان لیتی ہے۔ کوئی بھی اس سے مبراء نہیں۔ امتحان دنیا کا ہو یا آخرت کے حوالے سے بہت کٹھن ہوتا ہے۔ دونوں طرح کے امتحان کے لئے بہت محنت اور خاص ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔

دنیا میں ہمیں جن امتحانات اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے ہم ان کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک وہ امتحان یا آزمائش جو قدرت کی طرف سے آتی ہے۔ جس کے بارے میں سورہ بقرہ آیت نمبر155میں ارشاد ہے "اور ہم تمہیں آزمائیں گے ڈر سے، بھوک سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے"۔

دوسرا حصہ ہمارا تعلیمی نظام اور اس کا امتحانی نظام، جیسے روائتی طور پر ہم ہر شعبے میں انحطاط پزیر ہیں۔ یہ تعلیمی نظام بھی اب زمین بوس ہونے کے قریب ہے۔ ہم آج تک کوئی جامع پلان، کوئی نصاب جو موجودہ دنیا سے ہم آہنگ ہو اپنی نسل کو نہیں دے سکے۔ ہم ابھی تک ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ جب تک ہمارے تعلیمی نظام کی کل سیدھی نہیں ہوتی امتحانات ہمیشہ تضادات کا شکار رہیں گے۔

دنیا میں شاید ہی کہیں تعلیمی نظام میں امتحانات کے رزلٹ پر سوال اٹھائے جاتے ہوں واحد ہمارا ملک اس میں خود کفیل ہے۔ چاہے اسکول لیول کے ہوں یا ہائیر ایجوکیشن کے ان کے رزلٹ کو لے کر کافی لے دے ہوتی رہتی ہے۔ لیکن کسی نے بھی ان سوالات کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ سب ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر گامزن ہیں۔ پیپر ری چیک میں صرف نمبر کو دیکھ سکتے ہیں کہ ٹوٹل ٹھیک لگا ہے۔ مارکنگ پر آپ کی کوئی شنوائی نہیں یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ ممتحن کے دئیے گئے نمبر پر آپ کسی فورم پر آواز نہیں اٹھا سکتے ہیں نہ چیلنج کر سکتے ہیں۔ کوئی ایسا میکانزم ہونا چاہئے جہاں طالب علم کی مناسب داد رسی دل جوئی ہو سکے۔

اکثر دیکھنے میں آتا ہے جو بچہ اپنے ادارے میں اپنی کلاس میں نمایاں ہوتا وہ جب بورڈ لیول کا امتحان دیتا ہے تو اس کا رزلٹ اتنا شاندار نہیں ہوتا جس کی وہ توقع رکھتا ہے۔ اب اس میں کئی عوامل اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ پیپر میں جو سوال آئے ان پر اس کو اتنا عبور نہیں تھا۔ جو ممتحن پیپر مارک کر رہا اس کی قابلیت کیا ہے؟ عمومی طور پر بورڈ کے پیپر چیک کرنے والے اشخاص کی قابلیت پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے؟

پیپر مارک کرنے والے اشخاص کو کس چھلنی سے گزار کر یہ ڈیوٹی تفویض کی جاتی ہے۔ اس کی ذہنی کیفیت کیا ہے۔

اگر وہ مالی پریشانی، بجلی کا بل زیادہ آنے پر دماغی طور پر کسی اور کیفیت میں ہے تو وہ پیپر دیکھتے ہوئے نمبر دیتے ہوئے کیا رویہ رکھتا ہے یہ اہم بات ہے۔

جو پرانے اساتذہ ہیں وہ آج بھی حرف بہ حرف گائیڈ سے لکھی گئی تحریر کو ہی پیمانہ مانتے ہیں حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ جو بچہ خود سے تحریر بنا کر لکھ رہا ہو اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ یہ فیکٹر بھی بچہ کے مستقبل پر کاری ضرب لگاتا ہے۔

امتحان لینے والے ادارے کی پالیسی بھی کئی بار اثر انداز ہوتی ہے کہ بچہ بورڈ کے پیٹرن کو اچھے سے سمجھ نہیں پاتا اور وہ کم مارکس لے پاتا ہے۔ وجوہات اور بھی بے شمار ہیں یہ کالم ان سب وجوہات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ مقصد صرف اس ایشو کو اجاگر کرنا ہے۔

حالیہ نویں کلاس کے امتحان کا رزلٹ حیران کن ہے۔

ابھی دو دن پہلے پنجاب فارمیسی کونسل نے پہلے سال کارزلٹ جاری کیا جو صرف 8 فیصد کے لگ بھگ آیا ہے۔ یہ دو سال کا ڈپلومہ ہے۔ تمام طالب علم سراپا احتجاج ہیں۔ طرح طرح کی تھیوریز گردش کر رہی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم امتحانی طریقہ کو تبدیل کریں۔ دنیا میں ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ ہمیں بھی اپنے امتحانی طریقہ کار کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔

سوالات کے لمبے لمبے جوابات رٹہ لگا کر صفحے سیاہ کرنا مقصد نہیں ہونا چاہئے۔ با معنی با مقصد دو حرفی جواب جس سے یہ اندازہ ہو کہ بچہ اس مضمون کو کہاں تک سمجھتا ہے۔ اصولی طور پر یہ ہونا چاہئے کہ تمام امتحان سمسٹر کی طرز پر ہوں نمبرز کی بجائے گریڈ ہوں تمام امتحانات آن لائن لئے جائیں پیپر لیس کیا جائے انسانوں کی بجائے کمپیوٹر پیپر مارک کریں تا کہ یہ جو شوروغوغہ اٹھتا کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اس کا تدارک ہو سکے۔

پیپر کا وقت ختم ہو ساتھ ہی کمپیوٹر کا پرنٹ نکال کے طالب علم کے ہاتھ میں دیا جائے۔

رزلٹ لیٹ ہونا طالب علم کے لئے شدید ذہنی کوفت کا باعث بنتا ہے۔

فارمیسی کونسل پنجاب ابھی تک دو سالہ ڈپلومہ کے طالب علم جن کا سیشن 2019 تا 2021 تھا، تاحال رزلٹ کے انتظار میں لائن میں لگے کھڑے ہیں۔

آج کی ایک خبر تھی کہ 12 ربیع الاول کی وجہ سے کلاس نویں کا پیپر شیڈول کر دیا گیا ہے۔

ہماری نا اہلی سستی کاہلی اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہم اپنے کلینڈر کو سامنے رکھ کے امتحانی شیڈول نہیں بنا سکتے اور جن لوگوں نے اس امتحانی ڈیٹ شیٹ کو پاس کیا ہے وہ اس کرسی پر رہنے کے قابل نہیں ہیں۔

جب کوئی پیپر منسوخ ہوتا ہے یا تاریخ تبدیل ہوتی ہے اس کرب کا اندازہ امتحان دینے والا بچہ ہی لگا سکتا ہے۔

خدارا اپنے تعلیمی نظام کو بچا لیں۔ امتحانی طریقہ کار کو تبدیل کریں۔ کیا یہ جگ ہنسائی نہیں کہ بارہ سال طالب علم پڑھ کر پاس ہو کر اچھے نمبر لے کر پھر ایک امتحان دے تب اسے داخلہ ملے گا۔ ایک طرح سے یہ ہمارے سارے امتحانی سسٹم پر عدم اعتماد کا مظہر ہے۔

قدرت نے جو امتحان لینے وہ تو لینے ہیں۔ خدارا جو ہمارا تعلیمی مافیا امتحان کےگھن چکر میں الجھائے ہوئے ہے اس کا کوئی حل کریں۔ کوئی سد باب کریں۔

نوجوان نسل مایوس ہو رہی ہے تعلیم سے ان کا اعتماد اٹھ رہا ہے۔ معیار کو بہتر کریں۔ اگر ملک کو آگے کی جانب لے کر جانا ہے۔ امتحان کوئی بھی ہو مشکل ہوتا۔ اللہ پاک سب کے لئے آسانی والا معاملہ کرے۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed