Ik Khushgawar Jhonka
اک خوشگوار جھونکا

تقریباََ تمام پاکستانیوں کی نظریں آج کے ایک میگا ایونٹ جو پیرس اولمپکس میں ہو رہا تھا لگی ہوئی تھی۔ صد شکر الحمداللہ قوم کی اجتماعی دعاؤں اور ارشد ندیم کی ذاتی محنت کوشش، لگن اور جنون نے ان کو وکٹری سٹینڈ پر لا کھڑا کیا۔ جونہی لائیو ٹی وی پر پاکستان کے اس سپوت کا نام لیا گیا پاکستانی جھنڈا لہرایا گیا۔ آنکھوں میں آنسو تھے اور ایک جذباتی کیفیت تھی جو بیان سے باہر ہے۔
تقریبا چالیس سال کے بعد ایک نسل گزرنے کے بعد یہ پہلا گولڈ میڈل ہے جو کہ پاکستان کے حصے میں آیا ہے۔ اس مقابلے کو لاکھوں کروڑوں لوگوں نے لائیو دیکھا۔ اس میں زیادہ دلچسپی کا عنصر اس لئے بھی زیادہ نمایاں تھا کہ ہمارا ازلی دشمن بھی مقابلے میں تھا۔ جو کہ شاید سابقہ گولڈ میڈلسٹ بھی تھا، لیکن آج قدرت ارشد ندیم پر مہربان تھی۔ سچ ہے، اللہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت۔
کہتے کامیابی کا ہر کوئی باپ ہوتا ناکامی یتیم ہوتی ہے۔
ارشد ندیم کی انفرادی کاوش کو اب بہت سے لوگ اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ دیکھا جائے تو جتنے بھی ہمارے ملک کے ہیرو ہیں جن میں اسکوائش کے کھیل میں جہانگیر، جان شیر خاں، اسی طرح انفرادی گولڈ میڈلسٹ بالسنگ میں حسین شاہ کا نام آتا ہے۔ سب کے سب اپنے بل بوتے پر آگے آئے اور اپنا لوہا منوایا۔ جونہی ان کھیلوں کو گورنمنٹ کی سر پرستی میں دیا گیا ہم تنزلی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں؟
یہ وہ سوال ہے جس پر غوروخوض کی ضرورت ہے۔ ارشد ندیم کی کامیابی سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ نامساعد حالات ناکافی سہولیات کے بغیر بھی اگر کوئی اپنی منزل پر پہنچنا چاہتا ہے تو ان بیساکھیوں کی ضرورت نہیں۔
جیولین تھرو ہمارے ملک میں کوئی اتنی پاپولر گیم نہیں اب ہو سکتا کہ نوجوان ارشد ندیم سے متاثر ہو کر اس طرف آ جائیں۔
اگر ہم اولمپک گیم میں ہونے والی دوسری گیمز دیکھیں تو ہمارا حصہ آٹے میں نمک کے تناسب سے بھی نہیں ہے۔ جب کہ ہم دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پہلے دس ممالک کی صف میں آتے ہیں۔ ہمیں چین سے رہنمائی لینی چاہئے۔ ارشد ندیم کی کامیابی بتاتی ہے کہ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں بس ذرا گروم کرنا پالش کرنا ضروری ہے۔ حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم کھیلوں میں اقربا پروری اور سیاست کو شامل کریں گے تو وہی نتیجہ نکلے گا جو آج ہمارا قومی کھیل ہاکی اور پسندیدہ کھیل کرکٹ کا نکلا ہے۔
بجائے ہم ہاکی کے میدان بناتے مزید آسٹروٹرف بچھاتے ہم نے ہوٹلز تعمیر کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ گویا ایک مخصوص مائنڈ سیٹ مافیا جیت گیا ہے کھیل ہار گیا ہے۔
دنیا میں جو ممالک ٹاپ لسٹ میں آتے ہیں۔ وہ کھیلوں کے مقابلے میں بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔ گویا اقتصادی معاملات کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ کے معاملات میں بھی اپنا سکہ منوانا پڑتا اور دنیا کے سامنے اپنا سوفٹ امیج بنانا پڑتا ہے۔ ہمیں اس نہج پر بھی سوچنا چاہئے۔ ارشد ندیم کی ذاتی کامیابی کو اپنے کھاتے میں ڈال کے ستو پی کر نہیں سو جانا چاہئے بلکہ جو زیادتیاں یا تکالیف ارشد ندیم کو سہنی پڑی ہیں ان کا تدارک کرنا ضروری ہے اور جو جو سرخ فیتہ کھیلوں کے مقابلے میں رکاوٹ کا باعث ہے اس کو ختم کرنا ہوگا۔ "رائیٹ مین فار رائیٹ جاب"کے فارمولے پر عمل کرکے ہی ہم مزید میڈلز کی امید کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی دوآراء نہیں ہے یہ دھرتی بہت زرخیز ہے۔ اسی لئے شاعر نے کہا
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
آخر میں ارشد ندیم کا تہہ دل سے شکریہ اور پوری قوم کو مبارکباد کہ اس حبس زدہ ماحول میں کہیں سے تو اک خوشگوار جھونکے کی آمد ہوئی اور ساتھ اس دعا کہ اللہ پاک اس ہیرو کی عزت میں اضافہ کرے اپنی حفاظت میں رکھے عمومی طور پر دیکھا یہی گیا ہے اور ہمارا ٹریک ریکارڈ بھی یہی بتاتا ہے کہ ہم اپنے محسنوں اپنے ہیروز کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کرتے۔ اللہ کرے ارشد ندیم کے ساتھ وہ سب نہ ہو جو ہم نے اپنے سابقہ ہیروز کے ساتھ روا رکھا۔

