Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Hybrid War

Hybrid War

ہائبرڈ وار

ایک اچھا کسان اچھی فصل کے حصول کے لئے کئی اقدامات کرتا ہے۔ زمین کو ہموار کرنے اور اچھے بیج کے بونے سے لے کر فصل کی کٹائی تک اس دوران موسمیاتی اثرات سے بچانے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھاتا ہے۔ پھر کہیں جا کر امرت دھارا بہتی ہے۔ بالکل ویسے ہی اگر ہم اپنے ملک کی کل سیدھی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی تعلیمی نظام، امتحانات، بچوں کی اچھی تربیت کیونکر ممکن ہے اس پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر ہم اپنے آنے والی نسل کی آبیاری ہی ٹھیک طرح سے نہیں کریں گے تو ایک اچھی فصل کی امید بھی نہیں رکھنی چاہئے۔ کتنی پریشان کن اور مضحکہ خیز بات ہے کہ ہم ابھی تک اپنی نسل کو تعلیمی میدان میں کوئی صحیح روڈ میپ نہیں دے سکے ہیں۔ یکساں نصاب تعلیم ایک سراب ہی ثابت ہوا ہے۔ ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ نویں اور دسویں یا گیاریویں، بارویں کے امتحانات اکٹھے لینے ہیں یا الگ الگ؟

کووڈ کے بعد جو امتحانات بورڈز نے لئے اور جس طرح مارکس کی برسات کی گئی۔ وہ خود ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟ پھر اسی طرح انٹری ٹیسٹ کو متعارف کروانا خود امتحانی نظام پر ایک بہت بڑا سوال چھوڑ جاتا ہے کہ بچے نے جو پہلے امتحان دیا اس میں جھول ہے اس لئے آپ یہ والا ٹیسٹ پاس کرو گے تو آپ کی قابلیت مانی جائے گی۔ عجیب چھلنی بنائی گئی ہے۔

بجائے اپنے امتحانی نظام کی خامیاں دور کی جاتی، بچوں کے والدین پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا اور مجبور کر دیا گیا کہ اس ٹیسٹ کی تیاری کے لئے اس مافیا کے پاس جایا جائے جو اکیڈیمیز چلاتے ہیں۔ کراچی (سندھ) کے امتحانی نظام سب کے سامنے ہیں کہ کیسے وہ سب کچھ کیا جاتا جو کہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہم اس طرح وہ فوج ظفر موج دھڑا دھڑ تیار کئے جا رہے ہیں جس نے اس ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینی ہے۔

پنجاب میں بھی بچوں کے امتحان ہو رہے ہیں۔ ادھر بھی ایک ایسا تعلیمی مافیا موجود جس نےامتحانی نظام کو یر غمال بنا رکھا ہے۔ اور ہم جانے انجانے میں خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ دشمن کو ہم سے جنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہم اس طرح اس ہائبرڈ گیم کے گھیرے میں آ رہے ہیں جس سے ہم اپنے بچوں کو خود اپنے ہاتھوں تباہ کر رہے ہیں اور یہ دشمن کی پلاننگ بھی ہو سکتی ہے۔

بہت ضروری ہے کہ ہم امتحانی اصلاحات کریں۔ پیپر لیس کریں۔ ڈیجیٹل گیجٹ کا استعمال کریں۔ رٹہ سسٹم کو خدا حافظ بول دیں۔ ایک وقت تھا ہاتھ کی لکھائی پر بہت زور دیا جاتا تھا۔ اضافی نمبر بھی دئیے جاتے تھے۔ کمپیوٹر نے بہت کچھ تبدیل کر دیا ہے۔ ہمیں خود کو بھی تبدیل کر لیناچاہئے۔ جب سے پرائیویٹ تعلیم آئی بچوں کی اخلاقی تربیت پر بہت کاری ضرب لگی ہے۔ ڈسپلن نام کی چیز باقی نہیں رہی۔ رہتی سہتی کسر مار نہیں پیار نے پوری کر دی۔

بچوں کو ڈسپلن اور اخلاقیات سکھانے سے ہی قوم بنے گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم کچھ ایسے اقدامات کریں میری نظر میں جب بچہ جس کلاس سے بھی اسکول سے فارغ ہو لازم ہو کہ اس تعلیمی ادارے کا سر براہ اس بچے کے لئے دس نمبر کا ایک کریکٹر سرٹیفیکیٹ دیں جو جہاں بھی بچہ جائے دکھانا لازمی ہو۔ اس میں اس کی اسکول کی کار کردگی، غیر نصابی سرگرمیوں، ڈسپلن، وغیرہ کے الگ الگ نمبر ہوں اور ماہر نفسیات سے وہ چارٹ تیار کروایا جائے۔ جس میں اس بچے کی مستقبل میں دلچسبی کو نمایاں حیثیت دی جائے۔

اگر بچہ کسی غیر اخلاقی یا کسی بھی منفی سرگرمی کا حصہ رہا ہو تو اس کی پہچان کرنے میں آسانی ہو۔ یاد رہے کے تعلیمی سربراہ کے دئیے گئے نمبر بنیادی اہمیت کے حامل ہونے چاہئے۔ جیسے پریکٹیکل کی کاپی لازمی شرط ہے۔ اس سے بچوں کو ڈسپلن میں رکھنا آسان ہو جائے گا۔ وہ ادارے میں خود کو اچھا بنائے رکھیں گے۔ جو پرائیویٹ طالب علم ہوں گے وہ اپنا سابقہ اسکول کی کلاس کے سرٹیفیکیٹ پیش کر سکتے ہیں جب انہوں نے چھوڑا ہو گا۔

یا وہ کسی بھی گورنمنٹ کے تعلیمی ادارے کے سربراہ کے سامنےجا کر نئے سرے سے پیش ہو کر اپنے بارے میں رپورٹ تیار کروا سکتے ہیں۔ وہ رپورٹ اس کی سابقہ اسکول ہسٹری سے لی جا سکتی ہے۔ اس متعلقہ ادارے سے جو صرف ایک فون کال کی دوری پر ہے۔ تعلیمی ادارے کے سربراہ کے ریمارکس اور نمبر ہر طالب علم کی مارکس شیٹ پر پرنٹ کئے جائیں۔ ساتھ ایک حلفیہ بیان بھی ہو جو تعلیمی ادارے کے سر براہ اپنے دستخط کے ساتھ جاری کریں کہ انہوں نے ڈنڈی نہیں ماری۔

اسی طرح جو بیس منٹ کا معروضی پیپر ہے اس کو آن لائن لیا جائے تاکہ فوری رزلٹ حاصل ہو۔ اب ایسے سوفٹ وئیر موجود ہیں کہ پیپرز آن لائن لئے جا سکتے ہیں۔ رزلٹ فوری مل سکے گا۔ بچوں کا تعلیمی حرج نہیں ہو گا۔ لاگت کم آئے گی۔ نگران عملہ پیپر چیکنگ سٹاف کلیریکل سٹاف اس میں بھی کمی آئے گی۔ سب سے بڑھ کر بوٹی مافیا اور مارکنگ میں رد و بدل ختم ہو جائے گی۔ یقیناََ شروع میں نظام میں خامیاں بھی ہوتی ہیں پر وقت کے ساتھ ساتھ ان میں بہتری کی گنجائش ہوتی ہے۔

ابھی اگر ایک دو باتوں پر عمل کر لیا جائے تب بھی امتحانی نظام کچھ شفاف ہو سکتا ہے، ایک تو نگران عملہ کی مستقل بنیادوں پر ڈیوٹی نہیں ہونی چاہئے۔ دوسرا پیپر کی مارکنگ کرنے والے اساتذہ بھی مستقل بنیادوں پر نہیں ہونے چاہئے۔ پیپر تیار بھی اس انداز سے کئے جائیں کہ بچے کے اندر کی قابلیت کا اظہار ہو نا کہ مخصوص سوالوں کے جوابات یا گائیڈ بکس سے تیاری کر کے دے دئیے جائیں۔ ہمیں اپنی اچھی نوجوان تعلیم یافتہ نسل کی فصل تیار کرنی ہے تو زمین کو اچھے انداز سے تیار کرنا ہو گا۔

کسان کی طرح ہر مرحلے پر پوری توجہ دینی ہو گی۔ تب ہی ہمیں اچھی فصل کی اچھی قیمت مل سکے گی۔ تبھی ملک میں بہتری آئے گی۔ نہیں تو ہائبرڈ گیم کے شکنجے میں پھنس جانا ہے۔ جس میں یہ آپشن بھی ہوتا ہے کہ جس ملک کو تباہ کرنا مقصود ہو اس کے تعلیمی نظام کو برباد کر کے اس ملک کے نوجوانوں کو تباہ کر دیا جائے۔ موجودہ امتحانی نظام اور تعلیمی نظام جانے انجانے میں ہم خود اپنے ہاتھوں تباہ کر رہے ہیں۔ کہیں یہ ہائبرڈ گیم تو نہیں ہو رہی؟

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan