Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Haqiqi Tabdeeli

Haqiqi Tabdeeli

حقیقی تبدیلی

سیاحت دور جدید میں معشیت کے حوالے سے ایک ستون کی مانند سمجھی جاتی ہے۔ سابقہ حکومت اس کی اہمیت سے آگاہ تھی۔ ان سے جتنا بن پایا اس پر کام کیا گیا۔ لیکن بظاہر لگتا ہے کہ اس کام کو اس دلجمعی سے نہیں کیا گیا اس کی بڑی وجہ بیوروکریسی کا عدم دلچسپی ہے۔ یہ لوگ نہیں چاہتےکہ جو گورنمنٹ کے ریسٹ ہاؤسز یا ایسے ایریاز ہیں جو عام عوام کے لئے نو گو ایریا ایک تختی لگا کر بنا دیئے جاتے ہیں، کہ اس تک عام آدمی کی پہنچ ہی نہ ہو پائے۔ یہ وہ سوچ ہے جو انگریز اس خطے کے لوگوں کو غلامی میں رکھنا چاہتے تھے۔ اپنا رعب دبدبا قائم رکھنا چاہتے تھے۔ ابھی تکوہی قوانین چلے آ رہے ہیں۔

پچھلے دنوں منڈی بہاؤ الدین کے قریب ایک ہیڈ دیکھنے کا موقع ملا۔ جس سے کافی نہریں نکالی گئی ہیں۔ ابھی ایک نئی نہر پر کام ہو رہا جو شاید خوشاب کے علاقے کو سیراب کرے گی۔ اس علاقے کو دیکھ کر اندازہ ہوا وہاں حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں۔ حالانکہ حکومت چاہتی تو پرائیویٹ پاٹنرشپ کی بنیاد پر ایک اچھا سیاحتی مقام بنایا جا سکتا تھا۔ اس علاقے کے زیادہ تر لوگ یورپ میں مقیم ہیں۔ فنڈ اکٹھا کرنا یا انتظام کرنا کوئی مشکل مرحلہ نہ ہوتا۔

پتہ نہیں کیوں ہم ابھی تک پچھلی صدی میں جی رہے ہیں۔ ادھر ایک بورڈ پر لکھا تھا "فوٹو گرافری منع ہے" فی زمانہ موبائل ہر بندہ کے ہاتھ میں، پوری دنیا کے ڈیمز ہیڈز کے بارے میں معلومات، ڈرائننگ وغیرہ اب کچھ بھی خفیہ نہیں تو پھر یہ سیاحت کی رکاوٹ میں ایسی قدغن سمجھ سے بالا تر ہے۔ سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو سیٹلائیٹ اب سوئی کو بھی تلاش کر لیتے ہیں۔

ادھر جا کر احساس ہوا کہ ادھر دو پاکستان ہیں بائیں طرف نظر دوڑائیں تو ایک سڑک پر بیرئیر تھا جس پر لکھا تھا یہ شاہراہ عام نہی ہے۔ سٹاف کی کوٹھیاں نظر آ رہی تھی۔ درختوں کی بھرمار تھی۔ گرمی میں بھی ادھر ٹھنڈک کا احساس غالب آ رہا تھا۔ لیکن عام آدمی کو ادھر پاؤں رکھنےکی اجازت نہیں تھی۔ پل کے دوسری طرف جانوروں کو درختوں کے نیچے باندھا گیا تھا۔ انسانوں کے بیٹھنے سستانے ریفریشمنٹ انٹرٹینمنٹ کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔

کچھ فیمیلیز تھی جو کھانا اپنے ساتھ لائی تھی۔ ایک دو کشتیاں نظر آئی بس اس سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ یہی اگر پوائنٹ کسی یورپ ملک کا ہوتا تو واٹر گیمنگ اور سوزو واٹر پارک کی طرح کا کوئی سیاحتی مقام ہوتا اور دنیا کے سیاح اس مقام کا رخ کرتے۔ ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ ہمارے ملک میں بھی کچھ عرصہ سے سیاحت فروغ پا رہی ہے۔ لیکن لوگوں کے پاس چوائسز کم ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے ہم ایسے تفریحی مقامات کی نشاندہی کریں۔ ان کو صیح معنوں میں اپگریڈ کریں۔

ادھر تو پل کی یہ کیفیت تھی کہ جب اس پر سے ایک ٹرک گزرا تو پل لرز رہا تھا۔ کسی نے بتایا کہ اس پل کی عمر پوری ہو چکی ہے۔ ربّ توکل کھڑا ہے۔ جب ہمارے اہم مقامات کی یہ حالت ہو تو مزید سر کیا کھپانا۔ سیاحت کے حوالے سے ہمیں کہا گیا ہے کہ "زمین پر چلو پھرو اور غور و فکر کرو قدرت کی نشانیاں تلاش کرو" یہ ایک واضح پیغام ہے محکمہ سیاحت کو خواب غفلت سے جاگ جانا چاہئے، روائتی فرسودہ ڈنگ ٹپاؤ جیسے اقدامات کی بجائے ہم آہنگی سے ملک کی تقدیر اور حقیقی تبدیلی کے لئےکام کرے۔

ہمارے ملک میں سیاحت کے حوالے سے کافی پوٹینشل ہے۔ دقیانوسی رکاوٹیں اور افسر شاہی جو عوام کو کیڑا مکوڑا ہی رکھنا چاہتی ہے اس رویہ کو بدلنے کی ضرورت قوانین میں تبدیلی ہے جو موجودہ عصر سے ہم آہنگ ہو وہ بنائے جائیں۔ لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی جائیں۔ نہ کہ فرعونی رویہ اپنایا جائے۔ سیاحت کے لئے دوستانہ، مشفقانہ، آزادانہ ماحول بہت ضروری ہے۔ اس کے لئے سیاحتی مقامات کا الگ سے قانون اور فورس ہونی چاہئے۔ تبھی ہم حقیقی تبدیلی کی طرف جائیں گے جدھر دو نہیں ایک پاکستان ہو۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail