Gorakh Dhanda
گورکھ دھندا

جون کا مہینہ شروع ہوتے ہی بجٹ بجٹ کی آوازیں گونجنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بازاروں سے اشیاءضرورت کی چیزیں غائب ہونے لگتی ہیں۔ ہر طرف ایک بے یقینی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ پہلے تو سال میں صرف ایک بجٹ کا جھٹکا سہتے تھے لیکن اب تو سال میں منی بجٹ کے نام پر بہتسے جھٹکے چاروناچار سہنے پڑتے ہیں۔
ویسے تو ہر بجٹ حکومت کی طرف سے عوام دوست بجٹ ہوتا ہے۔ ہر حکومت یہی دعوی کرتی ہے۔ اپوزیشن ہمیشہ اس کو کمر توڑ بجٹ کا نام دیتی ہے اور مسترد کرتی ہے۔ پر کامیاب ہمیشہ حکومتہی ہوتی ہے۔
ویسے تو ایک عام آدمی اگر وہ اپنے گھر کا بجٹ بنانے کا سوچے تو زبان دانتوں کے نیچے آ جاتی ہے۔ بابؤں کو داد نہ دینا نا انصافی ہو گی۔ کہ کیسے وہ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں پھنسا کرعوام کو نچوڑتے ہیں۔
ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالی ہے۔ یہی سنتے آئے ہیں۔ ہر آنے والی حکومت نے یہی راگ الاپا ہےکہ خزانہ خالی ہے۔ عوام کو کچھ مہینے قربانی دینا ہو گی۔ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ بس کچھ عرصے کے بعد دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی۔ عوام کو ہمیشہ ایک ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائےرکھا ہے۔
بابؤں کی جانب سے حکومتی ارکان کے کان بھرے جاتے ہیں کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ حالانکہ ٹیکس کولیکشن میں ایف بی آر کے لوگ خود ایک بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ تاجرمحب وطن ہیں۔ ٹیکس دینا چاہتے ہیں۔ ایف بی آر جان بوجھ کے جس طرح کا فارم تیار کرتی ہے کہ کسی وکیل کے بغیر آپ اس کو مکمل ہی نہیں کر سکتے ادھر سے کچھ لو کچھ دو کا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔ اور حکومت کے خزانے میں پیسہ جانے کی بجائے کسی اور کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔
ویسے اگر غور کیا جائے تو بچہ پیدا ہوتے ہی حکومت کو ٹیکس دینا شروع کر دیتا ہے۔ جنم پرچی کی فیس کی صورت میں۔ پھر اس کے ڈبہ کا دودھ ہو یا پیمپر سب پر وہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ پھر جیسےجیسے وہ کار آمد شہری بنتا قدم قدم پر ٹیکس ادا کرتا ہے۔ سڑک استعمال کرے تو ٹول ٹیکس کے نام وصول کر لیا جاتا ہے۔ یوٹیلٹی بلزپر اتنے بے بہا ٹیکس لکھے ہوتے آج تک کوئی بھی ادارہ صحیح سےان سب اعدادوشمار کو اکٹھا نہیں کر پایا اور نہ ہی عوام کو اس قابل سمجھا گیا کہ ان سے یہ ڈیٹاشئیر کیا جائے۔
ملک کی مٹھی بھر اشرافیہ نے پورے سسٹم کر یرغمال بنا رکھا ہے۔ عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ ان کے دیئے گئے ٹیکس کو یہ حکمران طبقہ جس بے دردی سے بیرون ملک دوروں اور اپنی عیاشی پر خرچ کرتا ہے۔ عوام اور حکومت کے درمیان ایک خلیج قائم ہو جاتی ہے۔ عوام خیر خیرات تو کھلے دل سے کرتی ہے۔ حکومت پر عدم اعتماد کی وجہ سے ٹیکس کولیکشن میں کمی واقع ہوتی ہے۔
اس حکومت کو مشورہ ہے کہ ایف بی آر کو ختم کر دیا جائے یا ان کا رول محدود کر دیا جائے۔ تین کیٹیگریز بنائی جائیں۔
1۔ لارج ٹیکس پئیر یونٹس ان کو صرف ایف بی آر دیکھے۔
2۔ کاروباری مراکز۔
3۔ چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے
سروے کر کے یوٹیلٹی بلزکے ذریعے سارے ٹیکس اکٹھے کر کے فکس ٹیکس لیا جائے۔
کاروباری برادری کی بہت عرصے سے یہ ڈیمانڈ حکومتوں کے سامنے پیش کی جاتی رہی ہے کہ اگرملک کو کشکول سے نجات دینی ہے ترقی کرنی ہے تو ایف بی آر کے چنگل سے نکالا جائے ان کےگورکھ دھندے سے نجات دلائی جائے۔ سیدھا سیدھا فکس ٹیکس لاگو کر دیا جائے۔ ہر تاجر بخوشی ٹیکس دے گا۔ اتنا ریونیو اکٹھا ہو گا کہ ہمیں دوسرے ممالک کے پاس جا کر بھیک نہیں مانگنی پڑےگی۔
یہ ایک سیدھا سادھا نسخہ ہے۔ جو حکومت بھی اس پر عمل کر لے گی حکومت قرضوں کی دلدل سےنکل آئے گی۔ اور اگر ایف بی آر کے بابوؤں کے پیچھے چلے گی تو کبھی بھی ہم خوشحالی کی منزلتک نہیں پہنچ پائیں گے۔
ٹیکس کے نظام کو شفاف، سادہ اور آسان بنانا ہو گا۔ جتنا ٹیکس پیچیدہ اعشاری نظام میں اورشرح بڑھاتے جائیں گے کرپشن کی شرح بڑھتی جائے گی اور ملکی خزانہ خالی ہوتا جائے گا۔
جتنا جلد ممکن ہومختلف ٹیکسزکے گورکھ دھندے کو ختم کر کے فکس ٹیکس کی طرف پیش قدمی کیجائے تو امید واثق ہے کامیابی قدم چومے گی۔ آزمائش شرط ہے۔

