Door Ras Iqdamat
دور رس اقدامات

8اکتوبر قدرتی آفات کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جدید ترین امیر ترین ممالک بھی قدرت کی طرف سے آئے امتحان کو ٹال نہیں سکتے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ اس سے پیدا ہونے والے خطرات یا آنے والی مشکلات میں کما حقہ کمی ضرور لا سکتے ہیں۔
جاپان میں زلزلے تواتر سے آتے ہیں۔ انہوں نے اس سے پیداشدہ مشکلات پر کام کیا اور کافی حد تک انہوں نے جانی اور مالی نقصان کی شرح کم کر لی۔ اونچی بلڈنگز زلزلہ پروف بنا لی زیادہ تر گھر لکڑی سے تعمیر کرنا شروع کر دئیے۔
اسی طرح جدھر بارشیں زیادہ آتی تھیں یا سیلابی کیفیت زیادہ تھیں انہوں نے زیادہ سے زیادہ ڈیم بنا لئے۔ ہر حکومت کی کوشش ہوتی کہ وہ اپنی عوام کے تحفظ کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کرے۔ ان کے ٹیکسز کے پیسے صیح سے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں۔ لیکن اگر ہم اپنی حکومتوں کے طرز عمل کو دیکھیں تو ڈنگ ٹپاؤ پالیسی نظر آتی ہے۔ قدرتی آفات سے نپٹنے اور اپنی عوام کی جانی و مالی نقصان سے بچانے کے لئے کوئی بھی لائحہ عمل ان کے پاس نہیں ہے۔
قدرتی آفات تو ایک طرف اگر کسی اونچی عمارت میں خدانخواستہ شارٹ سرکٹ سے آگ لگ جائے تو اس آگ کو بجھانے کے لئے ضروری مشینری نا پید ہے۔ ہم صرف کچھ حد تک اونچی عمارت تک اسپرنگلز رکھتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارے ہاتھ کھڑے ہیں۔
اسی طرح جب بھی ملک میں کوئی آفت آتی ہے تو ہم کشکول لے کر دنیا کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یا ایک قومی دفاعی ادارے کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔
ہماری سیاسی حکومت اور ان کے کارندوں کا سارا زور فوٹو سیشن اور ووٹ پکے کرنے اور نقصان کے بعد چیک تقسیم کرنا، اور جھوٹی تسلی و تشفی سے کام چلایا جاتا ہے۔
جتنی رقم آفات یا نقصان کے بعد ووٹ پکے کرنے کے لئے چیک کی صورت میں دی جاتی ہے کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اس رقم سے ایسی مشینری خرید کریں جو کسی بھی ایمرجنسی حالات میں کام آ سکے۔
اکثر مشاہدات میں دیکھا گیا کہ اونچی عمارت سے لوگ کود رہے ہیں اور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ کیا کبھی کسی حکومت نے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے اس ادارے کو جو ایمرجنسی میں کام کرتے ہیں ضرورت کے مطابق ایسا سامان خرید کے دیا ہے کہ لوگ اس پر چھلانگ لگا کر خود کو بچا سکیں۔ مارکیٹ میں اس سامان کی کیا قیمت ہوگی۔ کیا وہ ایک جان یا اس چیک کی قیمت سے زیادہ ہوگی جو ہم مرنے کے بعد لواحقین کے سپرد کرتے ہیں۔ کیا یہ اس جان کا متبادل ہو سکتا ہے؟
اگر کوئی عمارت زمین بوس ہو جائے تو کیا ہمارے پاس مطلوبہ مشینری ہر شہر میں موجود ہے؟ جس سے عوام کی جان بچائی جا سکے۔
کیا ہمارے پاس مطلوبہ افرادی قوت جن کو ایسے معاملات سے نپٹنے کی صلاحیت ہو موجود ہے؟
پہلے برسات کے موسم میں سیلاب بہت آتے تھے۔ مہربانی ہو ہمارے دشمن ملک کی جنہوں نے ڈیم بنا کر کسی حد تک سیلاب کی تباہ کاری سے بچا رکھا ہے۔ درحقیقت اس سے زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ وہ جب چاہے ہمیں سیلاب کے ذریعے نقصان پہنچا سکتا ہے۔ تو کیا ہم نے کبھی اس نقصان سے بچنے کے لئے کوئی حفاظتی اقدامات کئے ہیں؟
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم ان سیلابی راستوں پر حفظ ماتقدم کے طور پر جگہ جگہ تالاب بنا دیں۔ ایک نئی تکنیک جیسے ہم بارش کے پانی کو زیر زمین پہنچا رہے وہ تکنیک استعمال کی جائے۔ تا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نپٹا جائے۔
ہم شہروں میں بڑے بڑے پلازے تعمیر کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ لیکن جو حفاظتی اصول و ضوابط ہیں متعلقہ ادارے اس پر آنکھیں بند کر جاتے ہیں۔ نہ ہم پارکنگ کے لئے جگہ مختص کرتے ہیں اور نہ ہی ہنگامی حالت میں نکلنے کے لئے راستہ چھوڑتے ہیں۔ جب کبھی کوئی حادثہ ہو جائے میڈیا چند دن اپنی ریٹنگ کے چکر میں اس پر واویلا کرتا ہے۔ پھر مکمل خاموشی چھا جاتی ہے۔ جیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو۔
ابھی پچھلے دنوں ایک مسلم ملک نے سینکڑوں کی تعداد میں دشمن پر میزائل برسائے۔ یہ قدرتی آفت تو نہیں تھی پر نا گہانی صورت حال ضرور تھی۔ پر ان لوگوں کی طرف سی دو حرفی بات ہوئی کہ ہمارا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا وجہ ان لوگوں نے اپنی عوام کے تحفظ کے لئے کام کیا تھا۔ پہلے سے ان کے علم میں تھا۔ اپنے دفاع کو مضبوط رکھا اپنے لوگوں کو تربیت دی کہ اپنے گھر اس طرح بنائیں کہ بوقت ضرورت اس میں آپ محفوظ رہ سکیں۔
چائنہ کے ایک گاؤں کی تصویر تھی جدھر لکڑی کا استعمال زیادہ تھا انہوں نے سسٹم ایسا بنایا کہ آگ لگ جانے کی صورت میں پانی کی دستیابی وافر موجود ہو اور وہ خود کار نظام کے تحت تھا۔ قومیں ایسے ہی کام کرتی ہیں اور قومیں بنتی بھی ایسے ہیں۔
دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں بنکر بنائے جاتے ہیں وہاں ضروریات زندگی کی چیزیں سٹاک میں رکھی جاتی ہیں۔
ہم ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں ایٹم بم کی تکون موجود ہے اور ایسے ملک کے ساتھ سرحد موجود جس پر ایٹمی حملے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ کوئی ایک چھوٹی سی غلطی بہت زیادہ نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔
کیا ہم اپنے بچوں کو ایسے حادثات واقعات سے بچاؤ کے لئے تیار کر رہے ہیں؟ کیا ہم اپنی تعمیرات اس طرح کی تیار کر رہے ہیں جس سے نقصان سے بچا جا سکے؟ کیا حکومتی سطح پر ہمارے پاس آبادی کے حساب سے بچاؤ کے لئے کوئی ماسٹر پلان یا سامان موجود ہے؟
اب جنگوں کے طور طریقے بدل گئے ہیں۔ ٹینکوں کا دور گزر گیا ہے ہمیں کچھ نئے زاوئیے سے سوچنا ہوگا۔ دنیا کے ساتھ قدم بقدم چلنا ہوگا۔ اپنے ملک اپنی عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ ایسے ہی دور رس اقدامات اٹھا کر ہی ہم سر اٹھا کر جی سکتے ہیں۔ ورنہ وہی کشکول ہوگا آنکھیں نیچی ہوں گی اور ایک ہی صدا ہوگی
دے جا سخیا راہ خدا۔۔

