Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Challenge

Challenge

چیلنج

پرانا وطیرہ ہے کہ جب بھی نئی حکومت بر سر اقتدار آتی ہے۔ انٹی انکروچمنٹ کو یاد آجاتا ہے کہناجائز تجاوزات کو ہٹانا ہے۔ اس کے لئے میڈیا کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پر تجربہ یہ بتاتا ہے کہیہ سب مشق لاحاصل رہتی ہے۔ آئیے ان وجوہات پر غور کریں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جو ناجائزتجاوزات کے نام پر نام نہاد آپریشن کیا جاتا ہے۔ وہ کچھ عرصہ کے بعد زیادہ شدومد کے ساتھکچھ نئے چہروں کے ساتھ پوری طمطراق کے ساتھ جلوہ گر ہو جاتا ہے۔

میری نظر میں اس آپریشن کے دو بڑے مقاصد نظر آتے ہیں۔ ایک سیاسی دوسرا انتظامی سیاسی سیٹ اپ بدلتے ہی سیاسی لوگوں نے اپنے بندے ایڈ جسٹ کروانے ہوتے ہیں۔ دوم جب آپریشن کیا جاتا تو غریب ریڑھی بان کی دوڑ مقامی سیاسی شخصیت کی حد تک ہوتی ہے۔ وہ سیاسی حربہ جو پولیس پٹواری کلچر کو فروغ دیتا ہے کہ اپنے ووٹ بینک کو بڑھاوا دینے کے لئے ان غریبلوگوں کو احسان بار کیا جائے ان کی چھینی گئی اشیاء ان سیاسی کارندوں کے کہنے پر واپس دلادی جاتی ہیں۔ اور اپنا ووٹ بینک پکا کر لیا جاتا ہے۔

دوسرا سیاسی فائدہ یہ اٹھایا جاتا اس آپریشنکی آڑ میں کہ اپنی سیاسی شان و شوکت ہو اور لوگوں میں اپنی حکومت کا رعب و دبدبہ قائم کیاجائے۔ آج بھی عوام سے ووٹ حاصل کرنے کے لئے ایسے منفی ہتھکنڈے عام ہیں۔

دوسرا انتظامی مسئلہ ہے۔ ہائی کمان کی سطح پر ہو سکتا افسران مخلص ہوں کہ ناجائز تجاوزاتکا خاتمہ کیا جائے۔ پر اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیا جائے تو اس انٹی انکرونچ منٹ محکمہ میں پورا ایک مافیہ ہے۔ جب چوکیدار ہی چور سے مل جائے تو مالک کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔

نچلی سطحپر ان کے ٹاؤٹ یا فرنٹ مین بعض کیسیز میں ان کےنچلی سطح کے ملازمین روزانہ یا ماہانہ کی بنیادپر ناجائز تجاوزات کروانے میں برابر کے شراکت دار ہوتے ہیں۔ جو بندہ ان کی مٹھی گرم نہیں کرتازیادہ تر وہی زیر عتاب آتا ہے۔ جب تک وہ بھی ان کو اپنا ان داتا نہیں مان لیتا اپنی ریڑھی یا کاؤنٹرنہیں لگا سکتا ہے۔ اب اس میں کس کو کتنا حصہ جاتا ہے۔ تحقیق طلب ہے۔

جونہی کوئی نیا لارڈ صاحب آتا ہے۔ نیا نوٹیفیکشن جاری کروا لیا جاتا ہے۔ تا کہ پرانے ریٹس میں اضافہ کروایا جا سکے یا پھر ان لوگوں کو اٹھا کر نئے کوگوں کو وہ جگہیں دے دی جائیں۔ جو پرانےلوگوں سے زیادہ روزانہ یا ماہانہ کی بنیاد پر ان ملازمین کی جیبیں بھر سکیں۔ پی۔ ٹی - آئی کیحکومت میں اس ناجائز تجاوزات کے خلاف بھر پور مہم چلائی گئی پر بیک اپ نہ ہونے کی وجہ سےچند جگہیں چھوڑ کر وہ لوگ نئے سرے سے پھر آباد ہو گئے۔ ان لوگوں پر دست شفقت کون رکھتا ہے؟

وہ ہاتھ تلاش کرنا بہت ضروری -نہیں تو یہ ناجائز تجاوزات کا شیطانی چکر گھن چکر بنا رہے گا۔ دوسرا نچلی سطح کے ملازمین کی ٹرانسفر جلد کی جائیں۔ ایک ہی جگہ کئی سالوں سے تعیناتی انلوگوں کے ان تجاوزات والوں سے تعلقات قائم ہونے کا ذریعہ بن جاتے جو پھر ایک دوسرے کو سپورٹکرتے ہیں۔ اس مشق سے روکنے کے لئے ان ملازمین کی خفیہ بینک اکاؤنٹس یا اثاثوں کی چھان بینبھی کی جائے تا کہ اس بد عنوانی کا خاتمہ کیا جا سکے اور حقیقی ثمرات سمیٹے جائیں۔ اورقبضہ مافیا کی حوصلہ شکنی ہو۔

میرا موجودہ پنجاب کے حکمرانوں کو چیلنج ہے اور یہ چیلنج بزدار صاحب کے لئے بھی تھا۔ اس پران کی کمزور گورننس پر سوال بھی اٹھائے تھے۔ پی ٹی آئی کی ناکامی کی بڑی وجہ پنجاب کیناقص کمزور گورننس بھی تھی۔

یہ ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ لاہور کے دل مال روڑ جس کا فٹ پاتھ ایک انصاف دینے والے ادارے کے بلکلبلمقابل ہے۔ ن لیگ اور ان کے مخصوص لوگوں نے مال روڈ کے فٹ پاتھ کے بیچوں بیچ دو سو گز کیسڑک کی مرمت کے نام پر تین افتتاحی تختیاں نصب کی گئی تھی۔ حیران کن طور پر قانون کے طالبعلم وکلاء حضرات روز اسی فٹ پاتھ پر پیدل گزرتے ہیں۔

کسی نے بھی اس قانون کی خلاف ورزی پرچوں تک نہیں کی۔ شاید ایک شہری نے رٹ پٹیشن بھی دائر کی وہ بھی کہیں فائلوں کے بوجھ تلےدبی رہ گئی۔ اب اس فٹ پاتھ پر درمیان والی تختی تو اپنی میعاد پوری کر کے ٹوٹ پھوٹ گئی لیکنعدالت کے بالمقابل فٹ پاتھ کے شروع اور ریگل چوک کی طرف اختتام میں وہ افتتاحی تختیاں آج بھی نصب ہیں۔

مستزاد یہ کہ پارکنگ مافیا دن کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اسی فٹ پاتھ کو اپنا پارکنگایریا بنا لیتا ہے۔ جو کہ پیدل چلنے والوں اور سکول کے بچوں کے لئے ایک پل صراط کی طرحمحسوس ہوتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ نئی انتظامیہ اس کیس کو کیسے لیتی ہے۔ اور اسی سے ثابت ہوگا کہ وہ اس نام نہاد آپریشن میں کتنی مخلص ہے۔ دنیا کے تمام ممالک پیدل چلنے والوں کو حقوق دیتے ہیں۔

فٹ پاتھ بھی پیدل چلنے والوں کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ نہ کہ ان پر پارکنگ کی جائیں اورنہ ہی کوئی ایسی رکاوٹ جو پیدل چلنے والوں کے لئے باعث اذیت ہو۔ اور جو لوگ ان افتتاحی تختیوں کے پاس سے گزرتے وہ کوئی اچھے خیالات کا اظہار نہیں کرتے بلکہ ن لیگ سے مزید دوری اختیارکرنے کی وجہ بن رہی ہیں۔

Check Also

Taiwan

By Toqeer Bhumla