Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Behissi Ka Almiya

Behissi Ka Almiya

بےحسی کا المیہ

پے در پے کچھ ایسے واقعات دیکھنے پڑھنے اور سننے کو ملے۔ جس سے معاشرے کی بے حسی نظر آئی۔ اگر ذاتی حیثیت میں دیکھا جائے تو مجھ سے بھی اسی رویہ اور بے حسی کی امید کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک کے قوانین اور لا اینڈ آرڈر اداروں کے گورکھ دھندے سے ہر شریف شہری پناہ مانگتا ہے۔

آخر ایسا کیوں ہے؟

ایک واقعہ پڑھنے کو ملا۔ کالم نگار ایک اقلیتی جماعت سے بطور ایم این اے بھی ہیں اور ان کا تعلق سندھ سے ہے۔ وہ رقم طراز ہیں کہ نیشنل ہائی وے پر ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آتا ہے۔ کوئی بھی ان کی مدد کے لئے نہیں آیا جو کچھ بھی کیا انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کیا۔

سوال یہ کہ کیوں کسی نے آگے بڑھ کر ان کی مدد نہیں کی؟

ہمارے ملک کا قانون یا خوف ایسا کہ جو بھی گواہ اس موقع کا موجود ہوتا ہے پولیس اس کو دھر لیتی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ کوئی بھی مجرم خود تھوڑی اطلاع دے گا کہ میں نے یہ جرم کیا ہے۔

دوسرا واقعہ ایک یونیورسٹی کی لڑکی کا رپورٹ ہوا جس میں اس کی لاش سڑک کے بیچوں بیچ پڑھی رہی اور کافی دیر تک اس کا کوئی پرسان حال نہیں بنا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ چانسلر صاحب آئیں گے تو اس پر کاروائی ہوگی۔ کیا کوئی ایسا ادارہ ہم نہیں بنا سکتے جو فوری رسپانڈ کرے۔ اطلاع دینے والے پر کوئی پوچھ گچھ نہ ہو اس پر کوئی ایکشن نہ لیا جا سکے۔

تیسرا واقعہ آنکھوں دیکھا ہے گلی میں ایک نشئی طبعی موت مارا گیا۔ اس کی لاش بھی کافی دیر گلی میں پڑی رہی۔ ہر بندہ خوف میں مبتلا تھا کہ ہاتھ بھی لاش کو لگا دیا تو پتہ نہیں کیا ہو جائے یہ بھی اسی خوف کا نتیجہ کہ کون تفتیش بھگتے۔ کچھ لوگوں نے ہمت کرکے اس ادارے میں اطلاع کی جو جائے حادثہ پر فوری پہنچتے ہیں۔ انہوں نے بھی انکار کیا کہ آپ ون فائیو پر کال کریں۔ مطلب وہ بھی قانون کی موشگافیوں سے بچنا چاہتے ہیں۔

ایسے میں بندہ کہاں جائے۔

روزانہ درجنوں کی بنیاد پر سڑک پر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ جن میں زیادہ تر ہمارا رویہ بے حسی کا ہی ہوتا ہے۔ جب سے یہ ڈیجئٹل گیجٹ ہاتھ میں آیا ہے ہمارا زیادہ رحجان اس واقعہ کو فلم بند کرنا ہوتا ہے۔ نہ کہ کسی کی جان بچانا ہمارا اولین مقصد ہوتا ہے۔

جدیدیت کے فوائد ہیں ہمیں ان سے انکار نہیں۔ پر جس طرح یہ گیجٹ ہماری زندگی میں ہمارے اپنوں کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کا موجب بن رہا ہے۔ گھر میں سب افراد بیٹھے ہوں گے آپس میں بات چیت کی بجائے سب اس گیجٹ پر مصروف اپنی دنیا میں گم ملیں گے۔ مہمان آئیں تو ان کا پہلا سوال وائی فائی کا پاسورڈ کیا ہے؟ ہوتا ہے۔

ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ منفی اور مثبت ہمارے ہاں منفی پہلو کی طرف توجہ زیادہ رہتی ہے۔ جس سے معاشرہ مزید منقسم ہو رہا ہے۔

دوسرے ممالک میں اکثر یہ دیکھنے کو ملتا کہ کسی نے انفرادی طور پر کوئی ایسا رفاع عامہ کا کام کیا تو اس کے کام کو عزت دی جاتی ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس کو سرٹیفیکٹ دیا جاتا ہے۔ جس سے دوسرے لوگوں کے اندر بھی مثبت انرجی پیدا ہوتی ہے۔

ہمارے ہاں بھی اسی جہت پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کہ اگر کوئی حادثہ میں یا کوئی بھی رفاعی کام انفرادی حثیت میں کرے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے نہ کہ اس کے لئے نا قابل معافی جرم بنا دیا جائے کہ وہ اپنی آنے والی نسل کو بھی بتا کر جائے کہ اس ملک میں نیکی کوئی نہیں کرنی ورنہ سیدھے جیل جاؤ گے۔

ایسی قانون سازی کی جائے اور اس کو مشتھر کیا جائے کہ کسی بھی جانی حادثے کی اطلاع دینے پر اس پر کوئی ایکشن نہیں ہوگا بلکہ حکومتی سطح پر اس کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ تو ہو سکتا کہ حادثے پر فوری امداد یا اطلاع پر اموات میں کمی لائی جا سکے۔

معاشرے کی بے حسی کی بڑی وجہ قانون کا غلط استعمال ہے۔ اس قانون کو ختم کیا جائے یا اس پر اور قانون سازی کی جائے۔ کسی زخمی یا مردہ کو ہسپتال پہنچانے پر اس شخص کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائیگی۔ تا وقتیکہ وہ کسی طرح اس واقعہ میں خود ملوث نہ ہو۔ بے جا ہراساں نہیں کیا جائے گا۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari