Bazahir Aik Mamooli Sa Waqia
بظاہر ایک معمولی سا واقعہ

انسان کی زندگی میں کچھ واقعات انسان کی سوچ کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ کسی نہ کسی واقعہ میں کوئی نہ کوئی نیا سبق ہوتا اور ساری زندگی انسان سیکھنے کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے میں ارد گرد نظر دوڑائیں تو ایک افراتفری کا سماں نظر آتا ہے۔ ایک بے چینی کی کیفیت ہے۔ لگتا زندگی سے سکوں نام کی چیز کہیں کھو گئی ہے۔
نئی نسل میں وہ سب خصوصیات نا پید ہوگئی ہیں۔ جو کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے ناگزیر ہوتی ہیں۔ دیکھا جائے تو اس صورتحال کی ذمہ دار ریاست ہے۔ کہنے والے کہہ سکتے کہ یہ سب سے آسان کام ریاست پرالزام لگانا۔ لیکن جس خامی کی نشان دہی میں کرنے جا رہا ہوں وہ ایک ریاست کی ہی ذمہ داری بنتی تھی بنتی ہے اور رہے گی۔
ہم سب کا رحجان وہ صرف پیسے کا حصول رہ گیا ہے۔ اس کے لئے زرائع کون سے ہیں وہ ہمارے لئے معنی نہیں رکھتا۔
ہم اب جس صورتحال سے گزر رہے ہیں یہ ایک دن میں نہیں بنی ہم بتدریج ڈھلوان کی طرف کھسکتے گئے ہیں کسی نے بھی اس ڈھلوان کے سفر کو روک لگانےکے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا اور اپنی نوجوان نسل کو تباہ برباد کرکے رکھ دیا صرف نوکری کا حصول ہی کامیابی کی ضمانت سمجھا جانے لگا۔ کامیابی کے لئے نمبروں کا حصول نصب العین بن گیا۔
اچھا معاشرہ اچھی قوم بننے کے لئے جو مواد چاہئے تھا جو عملی تربیت چاہئے تھی وہ ہم ابھی تک نہیں دے پا رہے۔ ذرا سوچئے گا ضرور۔۔
بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ پھر تعلیمی ادارے انسان کو چمکانے کا کام کرتے ہیں۔ یہ جو معاشرے میں ابتری ہے اس میں خرابی کا سب سے بڑا عنصر بچوں کی اعلی تربیت کا نہ ہونا ہے۔ اساتذہ کا تجربہ کار نہ ہونا ہے۔ جتنے بھی پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں صرف پیسا بنانے کی فیکٹریاں بن چکی ہیں۔ ان میں سے میٹریل بن کر کیا نکل رہا کسی کو کوئی فکر نہیں۔ آج اگر ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے سر براہان کی تعلیمی قابلیت، ان کا فیملی بیک گراؤنڈ، تدریس کا تجربہ، اور ان کے چہروں کا بغور جائزہ لیں تو اندازہ بخوبی ہو جائے گا کہ ہم اپنے بچوں کو کن کے ہاتھوں سونپ رہے ہیں۔
اس نرسری سے کون سی فصل تیار ہوگی۔ تین چار دہائیوں سے ہم ایسی ہی فصل کاشت کر رہے ہیں۔ اسی فصل سے تیار شدہ اب اساتذہ بھی مارکیٹ میں سستے داموں میسر ہیں اور ہم ابھی تک اس سنگینی کا احساس نہیں کر پا رہے۔ جس کا دل چاہتا تعلیمی ادارہ کھول کے بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ شروع کر دیتا ہے۔ بس شرط ایک کہ پیسہ وافر ہونا چاہئے تعلیمی ادارہ کھولنے کے لئے اور ملک میں ایسے اشرافیہ کی کمی نہیں ہے۔ ان لوگوں کا بچوں کی تربیت پر کوئی دھیان نہیں بس نمبروں کی دوڑ ہے اوررٹہ توتے بنانے والی فیکٹریاں کہنا موزوں رہے گا۔
بظاہر یہ ایک معمول کی بات ہے لیکن میری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ جوہر ٹاؤن میں ایک اسکول ہے اس کے باہر سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں۔ ایک روز پرانی بات ہے کہ ایک فراڈئیے نے ایک غریب محنت کش رکشہ ڈرائیور سے تقریبا تین لاکھ کا سامان ہتھیا لیا اور چیک کلئیر کروانے کے بہانے رفو چکر ہوگیا۔ یہ ساری واردات اس اسکول کی دیوار کے ساتھ ہوئی جو لازمی اسکول کے کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ ہوگئی۔ اس اسکول کے سیکیورٹی پر معمور بندے نے صبح آفس ٹائم میں آکر اس واقعہ کی فوٹیج حاصل کرنے لئے بول دیا۔ اگلے روز جب وہ غریب رکشے والا اس کے ایڈمن سے ملا تو اس کا انداز فرعونیت نما تھا اور فوٹیج دینے سے یا کسی بھی قسم کی مدد دینے سے صاف انکاری ہوگیا۔ یہ صیح ہے کہ وہ اس کا استحقاق تھا۔ جو اس نے استعمال کیا۔
پر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اسکول کے سربراہ کا اس طرح کا طرز عمل بچوں کی شخصیت پر کتنا بھاری پڑ رہا ہوگا۔ کیا کسی مظلوم کی دادرسی کرنا جرم ہے؟ اخلاقی مدد کرنا جرم ہے؟ کسی جرم کی نشان دہی کرنا؟ کسی غلط حرکت کی اصلاح کرنا؟ قانون کی پاسداری سکھانا؟ صرف کتابیں یاد کروا دینا اچھے نمبر لے دینا کامیابی نہیں تمام تعلیمی اداروں کا بنیادی فرض یہ ہونا چاہئے کہ جو بھی طالب علم آئے وہ معاشرے کا مہذب شہری بنے۔ اس کے عمل سے دوسروں کو نفع پہنچے۔ نا کہ شتر بے مہار ظفر موج تیار کی جائے۔
کسی بھی ادارے کا سر براہ ایک رول ماڈل ہوتا ہے۔ اگر وہ سربراہ صیح نہیں ہے تو اس کے نیچے تمام معاملات خرابی کی طرف جائیں گے جب اینٹ ہی ترچھی ہو تو دیوار کبھی بھی سیدھی نہیں بن سکتی ہے۔ یہ صرف ایک تعلیمی ادارے کا احوال ہے کہ جس نے بچوں کو صلح رحمی سکھانی ہے۔ جس نے یہ سکھانا ہے کہ ضرورت کے وقت دوسروں کے کام کیسے آنا ہے۔ دروازے پر آئے کسی سائل سے کیسے بات کرنی ہے۔ اخلاقیات کسی چڑیا کا نام ہے۔ جب تک عملی تربیت کا فقدان رہے گا کتابی علم صرف رٹہ توتے پیدا کرتا رہے گا اور یہ بے ہنگم معاشرہ مزید انتشار کی طرف بڑھتا رہے گا۔

