Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Awam Kahan Hain?

Awam Kahan Hain?

عوام کہاں ہیں؟

سبھی سیاستدان غریب عوام کی مالا جپتے ہیں۔ جب حکومت میں نہیں ہوتے تو ان کو عوام کا دکھ درد چین سے سونے نہیں دیتا۔ اور پھر جب یہ بات ان کے علم میں بھی ہو کہ ملک کے حالات دگر گوں ہیں۔ پھر بھی کرسی کے حصول کے لئے یہ کیا جتن نہیں کرتے؟ کیا یہ سب عوام کے لئے کر رہے ہوتے؟ کیا واقعی ان کے پیٹ میں عوام کے لئے مروڑ اٹھ رہے ہوتے؟ اس کا جواب ہے "نہیں"۔

اقتدار ایک نشہ ہے۔ جب نشہ لگ جاتا تو وہ پھر مجبوری بن جاتا اور جب مجبوری بن جائے تو پھراخلاقیات کس بلا کا نام ہے کوئی نہیں دیکھتا۔ پچھلے ستر سال سے اس قوم کو بیوقوف بنایا جاتا رہاہے۔ اور اب بھی جاری ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران یہی لوگ گلا کرتے تھے کہ کسی بھی منتخب حکومت کے وزیراعظم کو پانچ سال پورے نہیں کرنے دئیے جاتے۔ یہی لوگ اپنی بات کی نفی کر گئے۔ ان قوتوں کے سہولت کار بن گئے جو نہیں چاہتے تھے کہ کوئی بھی گورنمنٹ اپنی آئینی مدت پوری کرے۔ جس طرح عنان حکومت کو تبدیل کیا گیا اور جس طرح اب اس حکومت کو چلایا جارہا۔ جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں۔ اسمبلی میں اکثریتی عوام کی نمائندگی موجود ہی نہیں۔ اورچلے ہیں ملک کی تقدیر بدلنے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے؟

سابقہ حکومت کے خلاف رائے عامہ یہ بنائی گئی کہ یہ لوگ نا اہل ہیں نکمے ہیں نا تجربہ کار ہیں۔ مہنگائی کنٹرول نہیں ہو رہی وغیرہ وغیرہ یہ کیسٹ کی ایک سائیڈ چلتی رہی۔ جیسے ہی اقتدار میں آئے کیسٹ کی سائیڈ بدل دی گئی۔ آخر عوام کو یہ کیا سمجھتے ہیں؟

ان کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ جو بھی یہ عمل کر رہے عوام کے اندر لاوا پکتا جا رہا ہے۔ اقتدار پر آتے ہی انہوں نے وہی ہتھکنڈے شروع کر دئیے جو ایک فسطائی حکومت یا ایک مافیا کرتاہے۔ اور جس طرح الیکٹرانک میڈیا کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے یہ انہی کا شیوا ہے۔ میڈیا وہی دکھارہا ہے جس رنگ کی عینک ان کو پہنائی گئی ہے۔

کہاں ہے وہ نام نہاد صحافی وہ انسانی حقوق کی چمپئن این جی اوز۔ مجال ہے کسی نے بھی لانگ مارچ کے شرکاء پر ڈھائے گئے مظالم پر آواز بلند کی ہو۔ ایسا تو مارشل لاء میں بھی اس طرح ہینڈل نہیں کیا جاتا۔ اوپر سے دشنام طرازی یہ کی جا رہی کہ عوام باہر نہیں نکلی۔ لوگ کم تھے۔ لوگوں نے ساتھ چھوڑ دیا وغیرہ وغیرہ اپنے دل کو مطمئین کرنے کے لئے یہ جو مرضی سوچتے سمجھتےرہے پر عوام ان کو جان چکی ہے کہ سوائے ان کو اپنے کیسز ختم کروانے، ای وی ایم سے چھٹکاراحاصل کرنے کے لئے تا کہ روایتی طریقہ انتخاب جس میں دھاندلی کے ایکسپرٹ ہے یہ لوگ جس کااقرار ٹی وی پر ان کے ایک منجھے سیاستدان کر چکے ہیں۔

اوور سیز ووٹ سے بھی ان کو خطرہ یہ اب کہاں کہاں اور کب تک بند باندھتے رہیں گے؟ کہتے جب انسان مرگ بستر پر ہوتا ہے تو جیسے دیا بجھنے کے قریب ہوتا تو ایک بار پوری طرح ٹمٹماتا ہے پھر وہ بجھ جاتا ہے انسان بھی ایک دم سےلگتا کہ بھلا چنگا ہو گیا لیکن وہ حقیقت میں موت کا اشارہ ہوتا۔

ان سیاسی جماعتوں کی سیاسی موت کا اشارہ لگ رہا کہ ایک اور آخری بار ٹمتما رہی ہے۔ یہ اب جو بھی کریں گے رائے عامہ یہی بن رہی کہ ان سےاور ان کی آنے والی نسلوں سےجان چھڑانی ہے۔ اس لئے ووٹ کو عزت دو بیانیہ نہیں چلے گا۔ ووٹر کو شعور دو یہ بیانیہ ہی ملکی سلامتی ترقی وقار اور استحکام کا ضامن ہے۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed