Atkal Picho
اٹکل پچو

اٹکل پچو کا لفظ اصطلاحا استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کے معنی اوٹ پٹانگ، اندھا دھند، بے قرینہ، غیر مرتب، بے ڈھنگا، وغیرہ۔ بحثیت قوم، ملک، یا ادارہ ہم اٹکل پچو سے کام چلانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ابھی کی سیاسی حکومت کا حال دیکھ لیں۔ اس سے اچھی اٹکل پچو کی تصویر یا تشریح نہیں کی جا سکتی۔
میں چاہتا ہوں کہ ہم میں یہ جو اٹکل پچو کی بیماری سرائیت کرچکی ہے اس کا کوئی مداوا کیاجائے۔ یہ بیماری ہر ادارے ہر فرد کے اندر موجود ہے۔ ہمیں اس کا ادراک کرنا چاہئے۔ ہم میں ایک بات جو سب سے عام ہے کہ اگر ہمیں ذاتی کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہورہا ہوتا تو ہم بے حسی سے کہہ دیتے ہیں۔ "چھڈو جی سانوں کی" یہ رویہ ہمارےلئے زہر قاتل ہے۔ ہم ہر کام کو بس موقع کی مناسبت سے دیکھتے ہیں۔ اس کے دیرپا دور رس کیا نتائج ہوں گے۔ اس پر سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔
کسی ادارے کے استقبالیہ پر جائیں وہاں پر موجود بندہ آپ کو کبھی بھی پوری طرح گائیڈ نہیں کرےگا۔ فائل پوری پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرے گا۔ پہلے صفحے پر موجود خامی کو دور کرنے کا بولدے گا۔ وہ بندہ کسی دور دراز علاقے سے بھی ہو سکتا ہے۔ اب وہ بندہ واپس جاتا ہے۔ اپنی اس غلطی کو ٹھیک کروا کے جب دوبارہ فائل سامنے رکھتا ہے تو مزید کسی کاغذ لانے کی ڈیمانڈ رکھدی جاتی ہے۔
اب اس ڈیسک پر موجود بندے کی بے حسی دیکھے کے وہ یہ کام ایک ہی بار بول کےسب ٹھیک کروا سکتا ہے پر وہ خود کو جھنجھٹ میں نہیں ڈالنا چاہتا اور اٹکل پچو سے ہی کام چلاناچاہتا ہے۔ شاید اس طرح اس کو اپنی کرسی کا زعم اور قوت سے اس کے کسی جزبات کو تسکین مل جاتی ہے۔
اسی طرح بازاروں محلوں سڑکوں کے کنارے لگے بے ہنگھم کھنمبے اور اوپر سے تاروں کا جنجالپورہ ہماری قومی سوچ پلاننگ ہمارے رہن سہن کی اٹکل پچو کی صورت میں صحیح عکاسی کرتا ہے۔
چونکہ مئی کا مہینہ ہے اس میں ایک دن مزدوروں کے لئے وقف کیا گیا ہے۔ آج تک کسی نے بھی ان مزدوروں کی رجسٹریشن کرنے کی زحمت نہیں کی۔ ان کو کسی نے ٹریننگ دینے کا بیڑہ نہیں اٹھایا۔ جو کاریگر ان کو بھی جدید ٹولز کا استعمال نہیں سکھایا جا رہا۔ سوشل نیٹ ورک کی بدولت ایسےایسے ٹولز اور کام کرنے کا اتنا احسن انداز دیکھنے کو ملتا ہے کہ دل خوش ہو جائے۔ پر ہمارےکاریگر حضرات آج بھی چھینی ہتھوڑے کا استعمال کرتے ہیں۔ اور بڑے بڑے سوراخ کئے بغیر کام کوصفائی اور ترتیب سے کرنے سے یکسر عاری ہیں۔ اور اٹکل پچو سے کام چلاتے ہیں۔
جان بوجھ کےایسا کوئی خلاء چھوڑ جائیں گے کی جلدی اس کی دوبارہ ضرورت پڑ جائے تا کہ دیہاڑی مزیدسمیٹی جا سکے۔ آپ لاکھ کہیں کہ بھائی ذرا دھیان سے صفائی سے ایک رٹا رٹایا جملہ زبان پرہوتا سر آپ بے فکر رہیں ایسے ہی کریں گے پر مجال ہے کہ ان باتوں یا ہدایات پر عمل کریں۔ انہوں نےجیسے اپنے استاد سے سیکھا ہوتا اسی پر عمل پیرا رہتے جدت یا مزید سیکھنے سمجھنے کے عملسے عاری ہوتے۔ کیا ہم کوئی ایک ایسا ادارہ نہیں بنا سکتے جدھر ایسے لوگوں کا مزید ان کے کام کونکھارا جائے نئے ٹولز دئیے جائیں جدت سکھائی جائے کام کو جلد ترتیب سے کیسے نپٹانا ہے۔
ان لوگوں کےکام کی لسٹ یا وقت کے حساب سے ان کے ریٹس طے کر دئیے جائیں۔ یہ لوگ پیسوں کے معاملے میں من مانی کرتے ہیں۔ مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھانے سے بھی نہیں چوکتے۔ بہت ضروری کہ ان کاریگروں کو رجسٹرڈ کیا جائے گورنمنٹ کی طرف سے ان کو کارڈ ایشو کئے جائیں۔ کام صرف ان لوگوں سے کروایا جائے جن کو گورنمنٹ اون کرے۔ اور یہ ایک ایپ سے کنٹرول کئے جاسکتے ہیں۔ تا کہ ان کی اٹکل پچیوں سے بچا جا سکے۔
اس طرح کے بے شمار اٹکل پچو آپ کو جابجا نظر آئیں گے۔ کس کس کا رونا رویا جائے۔ کوئی بھی ذمہ داری نہیں لینا چاہتا سب چاہتے کہ بس میری جان چھوٹے باقی سب جائیں بھاڑ میں۔ یہ رویہ ہم سب کو اپنے اندر سے ختم کرنا چاہئے قومی سوچ ملک کی بہتری اور فلاح کے لئے ایک قوم بن کے سوچنا چاہئے۔ ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر قومی مفاد عزیز تر ہونا چاہئے۔ اسی میں ہم سب کی بقا پوشیدہ ہے۔ علامہ اقبال کے اس شعر کی مانند
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر

