Allah Ke Dost
اللہ کے دوست

یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن ہے۔ یہ ایک اچھی کاوش ہے۔ کہ مزدور کو اہمیت اور عزت دی گئی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ان کے کام کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے ان کودوسروں سے منفرد مقام یہ کہہ کر دے دیا تھا مزدوری کرنے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے۔
دنیا کا کوئی ایوارڈ کوئی عالمی دن اس ایک لائن کے مقام کو نہیں چھو سکتا ہے۔ اور ساتھ یہ درس بھی دیا گیاکہ مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔ قربان جاؤں ایسے مذہب پر جو ہر بات کا اتنی باریک بینی سے احاطہ کرتا ہے۔
اللہ کا نظام ایسا ہے کہ اس میں امیر بھی ہیں غریب بھی مزدور بھی ہے سرمایہ دار بھی سوچےاگر سب دنیا امارت کا شکار ہوتی تو دنیا کا نظام کیسے چلتا؟
ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر بہت سی روایات ہندو پرستانہ ہیں کیونکہ ہمارے آباؤاجداد متحدہ ہندوستان میں تھے۔ ذات پات کے حوالے سے ایک خلیج آج بھی ان میں موجود ہے۔ برہمن شودر میں تفریق آج بھی موجود ہے۔ وہی مائنڈ سیٹ کسی اور شکل میں ہمارے ہاں بھی موجود ہے۔
شہروں میں تو ذات پات کے حوالے سے اتنا غور نہیں کیا جاتا لیکن دیہات میں آج بھی جو ہاتھ سےکام کرتا یا ہنر رکھتا ہے اس کو کمی کہہ کر بولا جاتا ہے۔ اور ان کو حقارت سے ہی دیکھا جاتا ہے۔ چاہے وہ نائی ہو، موچی ہو، ترکھان ہو، قصہ مختصر جو بندہ بھی ہنر رکھتا ہے مزدوری کرتا ہےاس کے ساتھ ایک امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
معاشرہ اس کو اس کا جائز مقام دینے کو تیارنہیں ہے۔ حالانکہ ہمارے نبی پاکﷺ نے اس تفریق کو مٹانے کے لئے خود اپنے ہاتھ سے جوتے تک خود مرمت کر کے ہمیں واضح پیغام دیا کہ ہنر مند یا مزدور بھی معاشرے کا ایک جزو ہے۔ اور یہی ہماری بدقسمتی ہے"ہمارے ایک بہت اچھے قابل احترام بزرگ کالم نگار اکثر ایک جملہ کوٹ کرتے ہیں کہ یہاں ذاتیں جعلی کلیم جعلی" بات ان کی سو فیصد ٹھیک ہے۔
پر یہ نوبت آئی کیوں وجہ چھوٹی اور گھٹیا سوچ کہ کام کرنے والے کو کمی کا لقب دے دیا گیا جب ان کمی لوگوں کے بچوں نےایجوکیشن لی شعور کی منزل طے کی تو انہوں نے خود کو اس گالی اس گھٹیا سوچ کے عتاب سےبچنے کے کے لئے اپنے آپ کو دوسری ذاتوں میں ضم کر لیا۔ ہمارا معاشرہ ہی اس کا ذمہ دار ہے۔ اگرہم اسلامی تعلیمات کے مطابق مزدور سے حسن سلوک کرے اس کو اس کا جائز مقام دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ترقی نہ کریں۔ ہمیں سوچ کو تبدیل کرنا ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے دیار غیر میں گئے مزدوروں کی مجبوریوں کو سمجھا ان کو اہمیت دی اوران کے لئے آسانی پیدا کرنے کی کوشش بھی کی جس کا عملی ثبوت سعودی حکمران کے سامنے جومزدور جیلوں میں قید تھے ان کی رہائی ان کی عزت نفس کا خیال رکھنے کی بات کی یہ ایک نیک درددل رکھنے والا حقیقی لیڈر ہی اس آواز کو اٹھا سکتا ہے۔
آپ وہ ویڈیو کلپ دیکھے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ عمران خان صاحب کی زبان چہرہ کس دکھی انداز میں مزدور کے حق کے لئے اپنی اناکی قربانی دے رہا تھا۔ بیرون ممالک کیوں نہ یہ کیمونٹی اپنے لیڈر کے ساتھ کھڑی نہ ہو؟ یہ وہ باریک نقطہ ہے جو موجودہ وزیر داخلہ کی سمجھ سے بالاتر ہے ایک وہ ہے جو ان مزدوروں کیجیلوں سے رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ (قطع نظر کہ ان کو ایسی مقدس جگہ پر ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئے تھی)ایک یہ موجودہ وزیر داخلہ کا بیان ہے کہ ان مزدوروں کو ڈی پورٹ کر دیا جائےسزا دی جائے جیل بھیجا جائے ہو سکے تو ہمیں ان کا ڈیٹا شئر کیا جائے تا کہ ان پر اپنی بربریت کے پہاڑ توڑے جائیں بجائے عفو درگزر کرنے کے جمہوریت میں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتی ہے۔
نہ کہ اس کو ذاتی جنگ بنا لیا جائے کسی بھی طرح قابل ستائش نہیں گردانا جائے گا۔ بلکہ میری پی ٹی آئی کے لوگوں سے گزارش ہے کہ سعودی حکومت سے سفارتی سطح پر رابطہ کر کے ان مزدوروں کی ہر ممکن رہائی ان کے کام کرنے کو یقینی بنایا جائے اور ہر طرح سے ان لوگوں سےتعاون کیا جائے۔
رہی بات موجودہ حکمرانوں کے اس طرز عمل کی تو کیا کریں ظالم میڈیا اس کلپ کوبھی دیکھا رہا جب عمران خان پر انہی مقدس جگہ پر آوازیں کسی گئی تھی۔ تب ٹویٹ کچھ اورتھی اور آج خود پر بیتی تو ٹویٹ تبدیل عوام کو مزید بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔
یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر بہت ضروری کے سیمینارز منعقد کرنے کی بجائے ٹھوس اقدامات کئے جانے چاہئے مزدور کو جب اس کی صیح مزدوری اور معاشرے میں اس کو جائز مقام نہیں دیا جاتا ترقی کا خواب ادھوارا رہے گا۔

