Aag Hi Aag
آگ ہی آگ

موسمی درجہ حرارت کی زیادتی ہو یا سیاسی ٹمپریچر کی بات تو ہر طرف آگ کے تھپیڑے ہی نظرآرہے ہیں۔ ماہر موسمیات کافی عرصے سے لوگوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن لوگ ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ اور نہ ہی اس کو اس طرح سنجیدگی سے لے رہیں ہیں۔ حالانکہ بارشوں کا اس طرح نہ برسنا۔ سردی کا اپنے ٹائم سے آگے چلےجانا۔ زمین پر درجہ حرارت کا بڑھ جانا ہمیں جھنجوڑنے کے لئے کافی ہے۔
من حیث القوم ہم تب تک تیاری نہیں پکڑتے جب تک پانی ہمارے سر سے نہ گزر جائے۔ لاہور میں ہی دیکھ لیں۔ ترقی کے نام پردرختوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کیا گیا۔ اگر حکمرانوں میں شعور ہوتا یا صلہ رحمی کا مادہ ہوتاتو کبھی بھی اس طرح لوہے اور کنکریٹ کا پھیلاؤ نہ کرتے بلکہ شجر کاری کی آبیاری کرتے۔ وہ شہرجسے کبھی پارکوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ قصہ پارینہ بن چکا ہے۔
بات آگ کی ہو رہی ہے تو ہم نے درختوں کو بطور ایندھن آگ میں سب جھونک دیا۔ ستم ظریفی جو باغات ہم نے نئے لگائے یا جو جنگل بچ گئے ان کی رکھوالی بھی صحیح سے نہیں کر پارہے۔ پچھلے دنوں کچھ مقامات پر آگ لگنے کے پے در پے واقعات رونما ہوئے۔ اور جس طرح اس ایٹمیقوت کی حامل حکومت اور اداروں کو بے بسی کی تصویر بنا دیکھا جو کئی روز تک لگی آگ پر قابوپانے میں ناکام رہی۔
بھلا ہو ہمارے پڑوسی ملک کا اسی لئے کہتے کہ اچھا پڑوسی بھی ایک نعمت سے کم نہیں ہوتا جس کے طیارے نے آکر آگ پر قابو پایا۔ ملین ڈالر کا سوال ہے کہ ہم ایک ایٹمی قوت تو بن گئے ہیں۔ اگر جنگ میں ایسی کوئی صورت حال بن جائے تو ہمارے پاس کیا آپشن ہو گا؟
ہم نے کیوں ایسے طیارے نہیں خریدے یا تیار کئے جو اس طرح کی ہنگامی صورتحال کے لئے لازم وملزوم ہیں۔ ویسے تو ملک میں کسی بھی اونچی بلڈنگ میں آگ لگ جائے تو ہمارے پاس اس اونچائی تک آگ بجھانے کے لئے مشینری بھی نا کافی ہے۔
ہم فوٹو سیشن شو بازی ووٹ بینک میں اضافہ کرنے کے لئے مرنے والوں کو مالی امداد کھل کے دینےمیں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ پر اس مالی امداد سے کم قیمت سے آئندہ کے بچاؤ کے لئے سازوسامان خریدنایا پلاننگ کرنے میں کلی طور پر نابلد ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جتنی بار ملک کے مختلف شہروں میں آگ کے واقعات ہوئے ہیں ان سےہونے والے مالی اور جانی نقصان پر قابو پا لیا ہوتا۔
یہ سچ ہے کہ دنیا کی ترقی یافتہ ممالک بھی اس افتاد سے ماوراء نہیں ہیں۔ لیکن انہوں نے پلاننگ سے ایسے واقعات پر ہونے والے نقصانات پر کافی حد تک روک لگا رکھی ہے۔
اب جنگوں کے طور طریقے تبدیل ہو رہے ہیں۔ دشمن ملک کو معاشی طور پر مفلوج کرنا اس ہائبرڈ گیم کا اہم پلان ہوتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں پچھلی حکومت نے خوردنی آئل کی اہمیت کو مدنظررکھتے ہوئے ملک میں زیتون کے درخت اگانے کا اصولی فیصلہ کیا۔ جو کہ آنے والے وقت میں معاشی میدان میں ایک اہم رول ادا کرے گا۔
اسی طرح خام ادویات میں ایک بوٹی جو بطور نشہ استعمال ہوتی اس کو بطور خام ادویہ کے اگانے کا فیصلہ کیا یہ بھی ایک اچھی کاوش ہے۔ پر دشمن کبھی نہیں چاہے گا کہ آپ اس سے معاشی فوائد لیں سکے تو بہت ضروری ہے کہ ہم ابھی سے ایسےباغات جنگلات کی حفاظت کے لئے ایک فورس تشکیل دیں جو ہر طرح کے حالات میں ان کی حفاظت کر سکیں۔
آگ لگانا سب سے آسان کام ہے۔ جنگلات اگانے میں ایک نسل گزر جاتی ہے۔ تباہ کرنے کےلئے ایک چنگاری کافی ہوتی ہے۔ ہمیں ان واقعات کی انکوائری گہرائی سے کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ابھی سے دشمن نے ہمارے خلاف کمر کس لی ہو۔ جس طرح وہ ہم سے پانی چھین رہا ہے۔ ہماری زمینوں کو بنجر بنارہا ہے۔ یہ بھی اس کی کارستانی نہ ہو ہمیں اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے۔ آگ پر قابو پانے کے کما حقہ انتظام کرنے چاہئے کم از کم وہ ایک طیارہ تولازم ہو گیا ہے جس نے آگ بجھا کر اپنی دھاگ بٹھائی ہے۔
اسی طرح اونچی بلڈنگز تک آگ پرقابو پانے والی مشینیری بھی ناگزیر ہے۔ بلڈنگ میں پھنسے ہوئے لوگوں کو بچانے کے لئے نیچے جوجمپنگ پیڈ یا گدے یا جو بھی تحفظ کے لئے ضروری ہو اس پر کوئی روک نہ لگائے جلد ضرورت کےمطابق خرید کئے جائیں۔ مرنے کے بعد لواحقین پر سرمایہ کاری سے کہیں بہتر کہ ملکی اداروں کوفعال بنایا جائے۔ جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے انسانیت کو بچا لیا۔ اس جذبے کومد نظر رکھیں۔
سیاسی آگ ہو، حقیقی آگ ہو، یا حسد کی آگ ہو بہر حال بھسم کر کے ہی رہتی ہے۔
موجودہ حکومت جب بھی بر سر اقتدار ہو اداروں کے دفاتر میں آتشزدگی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اب تو بات جنگلات تک بھی چلی گئی ہے۔ ہمیں دونوں صورتوں میں بہر حال پانی ہی ڈالنا ہے۔ تا کہ سیاسی درجہ حرارت کم ہو۔ شاید اس سےموسمی درجہ حرارت بھی نیچے آ جائے۔
نوٹ: درختوں کے نیچے پرندوں کے لئے پانی رکھنے کے ساتھ ساتھ مزید درخت بھی لگانے چاہیے۔ تاکہ موسمی تبدیلیوں سے بہتر طریقے سے نپٹ سکیں۔

