Sunday, 28 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Abrar Majid/
  4. Imran Khan Ke Baghair Intikhabat

Imran Khan Ke Baghair Intikhabat

عمران خان کے بغیر انتخابات

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے اس بیان پر کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی شمولیت کے بغیر بھی شفاف اور غیر جانبدار انتخابات ہوسکتے ہیں پر مختلف حلقوں میں تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے جس میں انسانی حقوق کمیشن نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اگر جمہوری اقدار اور سیاسی اصولوں کی مطابقت سے دیکھا جائے تو ہر سیاسی جماعت کا برابری کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینا ان کا بنیادی حق ہے اور اس کی انکو اجازت بھی ہونی چاہیے۔

ویسے تو انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری اور نگرانی کا ادارہ الیکشن کمیشن ہے اور وہی کسی بھی سیاسی قائد، شخصیت یا جماعت کی اہلیت اور شرکت کے بارے حتمی فیصلے کا حق رکھتے ہیں اور اس کی روشنی میں وزیر اعظم کے اس بیان کی وضاحت وہ خود بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں مگر کچھ حالات و واقعات کی روشنی میں دیکھیں تواگر عمران خان اور تحریک انصاف کے اس جمہوری حق کو تسلیم کرتے ہوئے برابری کی بنیاد پر ان کی شرکت انکا حق ہے تو پھر یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ آیا ان کی سوچ و عمل یا جماعت کی کارکردگی انکے جمہوری ہونے کی اہلیت کو بھی ثابت کرتے ہیں یا نہیں؟

اگر 2018 کے انتخابات کو سیاسی انجئنیرنگ کا نتیجہ مان لیا جائے جس کے بغیر اب کوئی چارہ نہیں کیونکہ اس کے سہولت کاروں نے خود انکشافات کئے ہیں اور ان کے ادارے نے اپنے آپ کو نیوٹرل رہنے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قومی جمہوری جرم کے شریک جرم عمران خان جو اس جرم کے سب سے بڑے بینی فیشری تھے کو اس لئے چھوڑ دیا جائے کہ وہ سیاستدان تھے۔

پاکستان میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے میں ذاتی مفادات کی سوچ کا بہت بڑا کردار ہے اور اس میں سیاستدان بھی کسی سے پیچھے نہیں جنہوں نے ہر معرکے میں اپنے کاندھے پیش کرکے اس جرم کی راہ کو ہموار کیا ہے اور بعد میں وہ اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور ہر دفعہ عوام ان کی چالاکیوں میں آکر ان سے دھوکہ کھاجاتے ہیں۔

کیا وہ سمجھتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات جو موجودہ مہنگائی، غربت، بیروزگاری اور معاشی تباہی کی بنیادی وجہ ہیں ان کا سار ملبہ دوسروں پر ڈال کر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپناتے ہوئے عوامی ہمددیاں حاصل کرکے وہ سرخرو ہوجائیں گے۔ کیا عمران خان اور ان جیسے کردار کے حامل افراد کو ان کے حمائتی اور حواری جمہوریت پر شب خون مارنے کے بعدان کے کارناموں کو نظر انداز کرکےعوامی عدالت کے اندر وعدہ معاف گواہ بنا کر قومی ہیرو بناناچاہتے ہیں۔ ایسا کرنا اتنا آسان اور سادہ نہیں۔

وعدہ معاف گواہ بننے کے بھی کوئی اصول ہوتے ہیں۔ وعدہ معاف کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب اس کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہ ہو کوئی ثبوت میسر نہ ہو اور جب مجرم خود ہی اعتراف کر رہے ہوں تو کسی وعدہ معاف کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اور یہ اختیار بھی ریاست اور عدالت کے پاس ہوتا ہے کہ وہ کسی کی وعدہ معافی کی پیش کش کو مانتے ہیں یا نہیں۔ اب تو ان کے اپنے ساتھی ان کے خلاف وعدہ معاف بننے کے لئے بے چین ہیں۔ جرم کو چھپانے کے لئے اپنے شریک جرم ساتھوں کو بلیک میل کرکے اپنی جان چھڑوانے کی کوششیں اب کامیاب ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دیتیں۔

اگر وہ اپنے محسنوں کوچھوڑ دینے اور ان کی بے رخیوں کا بدلہ ان کے ادارے سے لینا چاہیں تو اس کو کیسے جائز تسلیم کر لیا جائے۔ کیا جو کچھ 9 مئی کو ہوا ہے اس کی تحقیق نہیں ہونی چاہیے؟ کیا اگر وہ اپنی گرفتاری پر تحریک انصاف کے کارکنوں کے فوجی تنصیبات اور قومی املاک پر دھاوے کو جسٹی فائی کرنے کی کوشش کریں تو اسے ان کی سادگی اور معصومیت سمجھتے ہوئے جائز مان لیا جائے۔ کیا ان کے اس بیانیے کو کہ اگر ان کو اقتدار سے علیحدہ کیا جاتا ہے تو پارلیمان، عدلیہ سے لے کر الیکشن کمیشن تک سب مجرم ہیں، اور وفاقی حکومت کی سونپی ہوئی آئینی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے فوجی اور رینجرز کے دستوں کو ان کی گرفتاری میں شمولیت پر اشتعال میں آکر ہجوم کے دھاوےکو ان کا جمہوری حق سمجھتے ہوئے سب ٹھیک مان لیا جائے۔

اگر آج بھی وہ سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرنے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنے پر بضد ہیں اور وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے اداروں کو ہی سیاست میں کردار ادا کرنے پر مجبور کرتے ہوئے دکھائی دیں اور مدد کے لئے پکار رہے ہوں تو ان کے اس رویے کو جمہوری کیسے مان لیا جائے۔

اگر ان کے شریک جرم سہولت کاروں کو ان کے اداروں کا تحفظ میسر ہے تو یہ اداروں کی ساکھ کو بچانے کے لئے ہے۔ اداروں کو غیر یقینی کا شکار کرکے مستقبل کے خطرات کے پیش نظر حفاظتی اقدامات کی حکمت عملی کے تحت ہو سکتاہے اور ایک سیاستدان کا ادارہ پارلیمان ہوتا ہے جو جمہوریت کا اصل نگہبان ہے۔ سیاستدان کے ساتھ کھڑے ہونے والی اس کی اپنی سیاسی جماعت یا اصولی سیاست اور جمہوری بیانیے پر دوسری سیاسی جماعتیں اور عوام ہوتی ہیں اور اگر کسی کے بیانیے کا بوجھ اس کی اپنی جماعت کی قیادت بھی نہ اٹھا سکے اور سیاسی اور جمہوری حلقے اس کے انداز سیاست سے نالاں ہوں تو اس کو جمہوری کیسے مان لیا جائے۔

محض بیانیوں کے بدل لینے اور دوسروں کی ناکامیوں سے نالاں عوام کی تکلیفوں سے ان کی ہمدردیاں حاصل کر لینے کو سیاسی کامیابی نہیں سمجھا جا سکتا۔ سیاست خدمت کا نام ہے اور اس میں صرف دوسروں کی غلطیوں کی نشاندہی کافی نہیں ہوتی۔ اس میں صرف اقتدار میں رہ کر خدمت ہی ممکن نہیں ہوتی بلکہ اپوزیشن میں رہ کر بھی اپنا مثبت کردار ادا کرکے خدمت کی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا تو اس کو اقتدار کا بھی کوئی حق حاصل نہیں۔ عوام کی نمائندگی کا حق ان کے مینڈٹ کی نسبت سے ہوتا ہے۔ اگر عوامی مینڈٹ آپ کو اپوزیشن میں بٹھاتا ہے تو اسے اقتدار کی جنگ لڑنے پر قربان نہیں کیا جاسکتا۔

آج ملک کی جو حالت ہے اس میں صرف ان کی اقتدار میں ہوتے ہوئے نااہلیوں کا حصہ ہی نہیں بلکہ ان کی اقتدار سے ہاتھ دھونے کے بعد سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے نامہ اعمال کا بھی کافی ہاتھ ہے۔

سیاست کے اصول اور جمہوری اقدار اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ریاست کی تقدیر سے کھیلنے کے بعد کسی کے جرائم پر پردہ ڈال دیا جائے۔ دائیوں سے پیٹ نہیں چھپائے جاسکتے۔ بیانیوں کے بدل لینے سے سادہ عوام کو تو دھوکہ دیا جاسکتا ہے مگر ریاستی اداروں کو اپنی نا اہلیوں اور کارناموں سے لا علم نہیں رکھا جاسکتا۔ اگر وہ ایک جمہوری سیاستدان ہونے کا فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کو پہلے اپنے جرائم پر پشیمان ہوتے ہوئے اداروں اور عدالتی نظام انصاف پر اعتماد کے ساتھ تمام تر تحقیقات اور اس پر قانونی کاروائیوں کا سامنا کرکے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنا ہوگا تب وہ ایک جمہوری سیاستدان کے طور پر اپنے جمہوری ہونے کے فائدے کے اہل ہوسکتے ہیں۔

اگر آج جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے قومی مجرموں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کوئی دوسرا بھی اس غلط فہمی میں ہے کہ اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد ان کو کوئی جوابدہ نہیں ٹھہرائے گا تو یہ ان کی بھی بھول ہے۔ یہ خداد داد ریاست کی حکومت عوامی خدمت کا شعبہ خالق حقیقی کی خلافت کے طور پرایک ذمہ داری کا نام ہے اور جو اسے بے اصولی اور ناجائز زرائع سے حاصل کرکے عزت و تکریم یا اجارہ داری کا زریعہ سمجھتا ہے اس کو پھر قدرت کے اصولوں کا نشانہ بننے کے انجام سے بے خبر نہیں رہنا چاہیے کیونکہ قدرت کے اصولوں کا فارمولہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا اور اسے ہی مکافات عمل کہتے ہیں۔

Check Also

Aik Mulaqat Ka Sawal Hai

By Najam Wali Khan