Hazrat Umar Aur Hazrat Hussain Ki Aapsi Muhabbat
حضرت عمرؓ اور حضرت حسینؓ کی آپسی محبت
نبی کریم ﷺ کے تمام صحابہ کرامؓ اور آپ ﷺ کی آل و اولاد کا عمل ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ محرم الحرام کے آغاز کی مناسبت سے خلیفۂِ دوم سیدنا عمر فاروقؓ اور نواسۂِ رسولﷺ شہیدِ کربلا سیدنا حسینؓ کے آپسی حُسنِ تعلقات، باہمی اعتماد، قلبی محبت، دلی اُلفت، اتحاد و یگانگت، اتفاق و ہم آہنگی اور بہترین سلوک کے حوالے سے چند گزارشات ذکر کی جاتی ہیں کہ ان احباب کی آپسی کتنی محبت اور چاہت تھی۔
حضرت حسینؓ کی ہمشیرہ محترمہ سیدہ ام کلثومؓ کا نکاح حضرت عمر فاروقؓ کے ساتھ ہوا۔
قَالَ ثَعُلَبَةُ بُنُ أَبِي مَالِكٍ رَضِیَ اللہُ عَنُہُ إِنَّ عُمَرَ بُنَ الُخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنُهُ قَسَمَ مُرُوطًا بَيُنَ نِسَاءٍ مِنُ نِسَاءِ الُمَدِينَةِ فَبَقِيَ مِرُطٌ جَيِّدٌ فَقَالَ لَهُ بَعُضُ مَنُ عِنُدَهُ يَا أَمِيرَ الُمُؤُمِنِينَ أَعُطِ هَذَا ابُنَةَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيُهِ وَسَلَّمَ الَّتِي عِنُدَكَ يُرِيدُونَ أُمَّ كُلُثُومٍ بِنُتَ عَلِيٍّ۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 2281)
حضرت ثعلبہ بن ابی مالکؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے مدینہ منورہ کی خواتین میں چادریں تقسیم کیں تو ایک قیمتی چادر بچ گئی۔ حضرت عمرؓ کے قریب بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: امیرالمؤمنین! یہ چادر نبی کریم ﷺ کی بیٹی (نواسی) کو دے دیں جو کہ آپ کی زوجہ ہے۔ ان کی مراد سیدہ ام کلثوم بنت علیؓ تھی۔
عَنُ أَبِي صَالِحٍ رَضِیَ اللہُ عَنُہُ أَنَّ الُحَسَنَ وَالُحُسَيُنَ رَضِیَ اللہُ عَنُہُمَا كَانَا يَدُخُلَانِ عَلَى أُخُتِهِمَا أُمِّ كُلُثُومٍ رَضِیَ اللہُ عَنُہَا وَهِيَ تُمَشِّطُ۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ، رقم الحدیث: 17280)
ترجمہ: حضرت ابو صالحؓ سے مروی ہے کہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ دونوں اپنی ہمشیرہ حضرت ام کلثومؓ کے پاس جایا کرتے تھے بعض اوقات وہ اپنے بالوں میں کنگھی کر رہی ہوتی تھیں۔
عَنُ يَحُيٰى بُنِ سَعِيُدٍ قَالَ أَمَرَ عُمَرُ حُسَيُنَ بُنَ عَلِيٍّ أَنُ يَّأُتِيَهُ فِيُ بَعُضِ الُحَاجَةِ فَأَتَاهُ حُسَيُن فَلَقِيَهُ عَبُدُ اللهِ بُنُ عُمَرَ فَقَالَ لَهُ حُسَيُنٌ مِنُ أَيُنَ جِئُتَ قَالَ قَدِ اسُتَأُذَنُتُ عَلٰى عُمَرَ فَلَمُ يُؤُذَنُ لِّيُ فَرَجَعَ حُسَيُنٌ فَلَقِيَهُ عُمَرُ فَقَالَ لَهُ مَا مَنَعَكَ يَا حُسَيُنُ أَنُ تَأُتِيَنِيُ قَالَ قَدُ أَتَيُتُكَ وَلٰكِنُ أَخُبَرَنِيُ عَبُدُ اللهِ بُنُ عُمَرَ أَنَّهُ لَمُ يُؤُذَنُ لَّهُ عَلَيُكَ فَرَجَعُتُ فَقَالَ لَهُ عُمُرُ وَأَنُتَ عِنُدِيُ مِثُلَهُ أَنُتَ عِنُدِيُ مِثُلَهُ وَهَلُ أَنُبَتَ الشَّعُرُ عَلَى الرَّأُسِ غَيُرُكُمُ۔ (تاریخ مدینہ دمشق لابن عساکر، ج: 14، ﷺ 175)
ترجمہ: حضرت یحییٰ بن سعیدؒ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے حضرت حسینؓ کو فرمایا:
"آپ کبھی ہمارے ہاں گھرتشریف لائیں ! "
چنانچہ کچھ عرصے بعد حضرت حسینؓ حضرت عمرؓ سے ملاقات کرنے اِن کے گھر تشریف لائے۔ حضرت عمرؓ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ: "حضرت عمرؓ کسی کام میں مصروف ہیں مجھے بھی اندر جانے کی اجازت نہیں"۔
یہ صورتحال دیکھ کر حضرت حسینؓ ملاقات کیے بغیر ہی واپس تشریف لے گئے۔ پھر کچھ عرصہ بعد حضرت عمرؓ سے حضرت حسینؓ کی ملاقات ہوئی تو حضرت عمرؓ نے فرمایا:
"حسینؓ! کیا بات ہے آپ ہمارے ہاں تشریف کیوں نہیں لائے؟"
حضرت حسینؓ سے فرمایا:
"میں آپ سے ملنے آپ کے ہاں گیا تھا لیکن وہاں جا کر معلوم ہوا کہ آپ بہت مصروف تھے یہاں تک کہ آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ کو بھی آپ سے ملنے کی اجازت نہیں تھی تو میں واپس آگیا"۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا:
"کہاں میرا بیٹا عبداللہ اور کہاں آپ کا مقام و مرتبہ! یعنی جب آپ تشریف لائے تھے تو مجھے اطلاع بھیج دیتے میں اپنا کام موخر کر لیتا اور آپ سے ملاقات کرتا۔ اس کے بعد فرمایا کہ ہمیں جو عزت ملی ہے وہ سب آپ لوگوں کی وجہ سے ملی ہے"۔
عَنِ الزُّهُرِيِّ أنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنُہُ كَسَا أَبُنَاءَ الصَّحَابَةِ وَلَمُ يَكُنُ فِي ذَلِكَ مَا يَصُلُحُ لِلُحَسَنِ وَالحُسَيُنِ فَبَعثَ إِلَى اليَمَنِ فَأُتِي بِكِسُوَةٍ لَهُمَا فَقَالَ: اَلُآنَ طَابَتُ نَفُسِي۔ (سیر اعلام النبلاءللذھبی، الحسین الشھید)
ترجمہ: امام زُہری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر ؓنے صحابہ کرامؓ کی اولادوں کو مال غنیمت میں سے لباس دیے ان میں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے شایان شان کوئی لباس نہیں تھا۔
حضرت عمرؓ نےیمن کے علاقے کی طرف آدمی روانہ کرکے والی یمن کو حکم بھیجا کہ دونوں شہزادوں حضرت حسنؓ اور حسینؓ کے لیے خصوصی قیمتی اور خوبصورت لباس تیار کرکے بھیجا جائے۔
جب یہ لباس وہاں سے تیار ہو کر آیا اور ان دونوں شہزادوں نے پہنا تو اس وقت حضرت عمرؓ ان کو دیکھ کر فرمایا:
"اب مجھے دلی خوشی ہوئی ہے"۔
عَنِ إِبُرَاهِيمَ بُنِ عَبُدِ الرَّحُمَنِ بُنِ عَوُفٍ قَالَ: لَمَّا أُتِيَ عُمَرُ بِكُنُوزِ كِسُرٰى۔۔ ثُمَّ قَالَ: أَنَكِيلُ لَهُمُ بِالصَّاعِ أَمُ نَحُثُوَ؟ فَقَالَ عَلِيٌّ: بَلِ احُثُوا لَهُمُ ثُمَّ دَعَا حَسَنَ بُنَ عَلِيٍّ أَوَّلَ النَّاسِ فَحَثَا لَهُ ثُمَّ دَعَا حُسَيُنًا ثُمَّ أَعُطَى النَّاسَ۔ (الجامع لمعمر بن راشد الازدی، م: 153ھ)
حضرت ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے مروی ہے کہ جب حضرت عمرؓ كی خدمت میں مدینہ طیبہ میں شاہ ایران کے خزانے بطور مال غنیمت پیش کیے گئے۔ حضرت عمرؓ نے اس بارے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا کہ اس کو کس طرح تقسیم کیا جائے؟ یعنی کسی پیمانے سے ماپ کر یا ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے اندازہ کرکے تقسیم کیا جائے؟
حضرت علی المرتضیٰؓ نے فرمایا: "ہاتھوں کی ہتھیلی سے دینا زیادہ بہتر ہے"۔
حضرت عمرؓ نے سب سے پہلے حضرت حسنؓ کو اسی طرح دیا اور اس کے بعد حضرت حسینؓ کو بلا کر اسی طرح سے عنایت فرمایا اور اس کے بعد لوگوں کو بلا بلا کر دینا شروع کیا۔
عَنُ مُوُسَى بنِ مُحَمَّدٍ التَّيُمِيِّ عَنُ أَبِيُهِ أَنَّ عُمَرَ رَضِیَ اللہُ عَنُہُ لَمَّا دَوَّنَ الدِّيُوَانَ أَلُحقَ الحَسَنَ وَالحُسَيُنَ بِفَرِيضَةِ أَبِيهِمَا لِقَرَابَتِهِمَا مِنُ رَسُوُلِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيُهِ وَسَلَّمَ فَرَضَ لِكُلٍّ مِنُهُمَا خَمُسَةَ آلاَفِ دِرُهَمٍ۔ (سیر اعلام النبلاءللذھبی، الحسن بن علی)
حضرت عمر بن خطابؓ نے جب مالی امداد کی سرکاری فہرستیں بنوائیں تو حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے لیے ان کے والد گرامی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے برابر وظیفہ مقرر کیا یعنی بدری صحابہ کرامؓ کے موافق پانچ پانچ ہزار دراہم مقرر کیے۔ اس لیے کہ یہ دونوں جنتی شہزادے نبی کریم ﷺ کے خاندان کے افراد ہیں۔
یہ تمام اہم واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ صحابہ اکرامؓ کی آپسی محبت کیسی تھی، بالخصوص حضرات صحابہؓ کی اہل بیت اطہارؓ سے محبت، عزت، شفقت قابل دید اور قابل رشک تھی۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی اہل بیت اطہارؓ اور صحابہ کرامؓ سے ویسی ہی محبت نصیب فرمائے جیسے وہ آپسی محبت کیا کرتے تھے۔

