Fazail e Muharram Ul Haram
فضائل محرم الحرام
ماہ محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا قمری مہینہ ہے۔ اس مہینے کو عربی میں "المُحرّم" کہا جاتا ہے، محرم کا لفظ حرمت سے نکلا ہے، حرمت کے لفظی معنی "عظمت و احترام"کے ہیں۔ عرب اس مہینے میں جنگ و جدال کو حرام سمجھتے تھے، اس لیے اس مہینے کا نام "محرم"رکھا گیا ہے۔ (المطلع على ألفاظ المقنع: ص: 191، ط: مكتبة السوادي)
محرم کو محرم اس کی عظمت اور حرمت کی وجہ سے کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ "اشھر حرم" میں سے ہے۔ علامہ سخاویؒ كے مطابق زمانہ جاہلیت میں عرب اس مہینے کے ساتھ کھلواڑ کرتے تھے، کبھی لڑائی کے لیے حرام کر لیتے تھے اور کبھی حلال کرلیتے، اس لیے اس مہینے میں لڑائی کے حرام ہونے کی تاکید کے لیے اس کو "محرّم"کہا گیا ہے۔ (تفسير ابن كثير: 146/4، ط: دار طیبة)
اسلام سے قبل بھی یہ مہینہ قابل احترام تھا اور اہل مکہ اسی مہینے سے نئے سال کا آغاز کرتے تھے۔ امیر المؤمین سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں جب اسلامی تاریخ کا مسئلہ زیر بحث آیا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین کے اتفاق رائے سے"محرم"کو اسلامی سال کا پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔ (المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام للدكتور جواد علي: 121/16، ط: دار الساقي)
بعض روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی سن ہجری کا آغاز جناب رسول اللہ ﷺ کے حکم سے آپ کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا، لیکن سرکاری مرسلات میں اس کا باقاعدگی سے اندراج حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں ہوا، علامہ سیوطیؒ نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ (کذا فی الشماريخ في علم التاريخ للسيوطي: ص: 11- 12، ط: مكتبة الآداب)
محرم کا مہینہ ان چار مہینوں میں سے ہے، جن کو اللہ تعالی نے "اشہُر حُرُم" یعنی حرمت والے مہینے قرار دیا ہے۔
سورة توبہ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے۔ جو اللہ کی کتاب (یعنی لوح محفوظ) کے مطابق اس دن سے نافذ چلی آتی ہے، جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ ان (بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ (التوبۃ، آیت نمبر: 36)
امام نسائیؒ نے اس ماہِ مبارک کی فضیلت پر یہ روایت نقل فرمائی ہے: "عن أبي ذرؓ قال: سألتُ النبي ﷺ أيُ الیل خیر؟ و أي الأشھر أفضل؟ فقال: خیر الیل جوفہ، وأفضل الأشھر شھر اللہ الذي تدعونہ المحرم"۔
"حضرت ابو ذرؓ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سوال کیا: رات کا کونسا حصہ بہتر ہے؟ اور کونسا مہینہ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: رات کا درمیانی حصہ بہتر ہے اور مہینوں میں افضل مہینہ اللہ کا مہینہ ہے، جس کو تم محرم کہتے ہو، لیکن ماہِ رمضان اس سے مستثنیٰ ہے"۔ (خصوصیاتِ ماہِ محرم الحرام)
حضرت حسن بصریؒ اور متاخرین علماء کے نزدیک محرم کا مہینہ حرمت والے مہینوں (ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب) میں سے سب سے افضل مہینہ ہے۔
حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ: "اللہ تعالی نے اسلامی سال کی ابتداء بھی "اشھر حرم" سے کی اور اختتام بھی "اشھر حرم" پر کیا، سال بھر کے مہینوں میں رمضان کے بعد اللہ تعالی کے نزدیک افضل ترین مہینہ محرم ہی کا ہے، اس کی شدت حرمت کی وجہ سے" اس کو "شھر اللہ الاصم" (اللہ تعالی کا بہرا مہینہ) کہا گیا ہے۔ (لطائف المعارف لابن رجب: ص: 78، ط: دار ابن کثیر، بیروت)
حضرت قتادہؓ نے فرمایا: "حرمت کے مہینوں میں نیک کام کرنے کاثواب بہت بڑا ہے، لہٰذا ان میں گناہ کرنے کا عذاب بھی بہت بڑا ہے، اگر چہ گناہ ہر زمانہ میں (برائی کے لحاظ سے) بڑا ہوتا ہے"۔ (مظہری)
امام ابوبکر جصاصؒ نے لکھا ہے: "ان بابرکت مہینوں میں جو شخص عبادت کرتا ہے، اس کو دوسرے مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق ہوجاتی ہے اور جو شخص ان مہینوں میں گناہوں سے بچنے کی کوشش کرے گا، تو اس کے لیے سال کے باقی مہینے بھی گناہوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے"۔ (احکام القرآن: 308/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒ لکھتے ہیں کہ: "تمام انبیاء کی شریعتیں اس پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں میں عبادت کا ثواب زیادہ ہوتا ہے اور ان میں کوئی گناہ کرے تو اس کا وبال وعذاب بھی زیادہ ہوتا ہے"۔ (معارف القرآن: 372/4، ط: ادارة المعارف)
یوم عاشوراء زمانہٴ جاہلیت میں قریشِ مکہ کے نزدیک بڑا محترم دن تھا، اسی دن خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے۔ نبی کریم ﷺ سے بھی اس دن کی متعدد فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: ما رأیتُ النبیَّ ﷺ یَتَحَرّیٰ صیامَ یومٍ فضَّلَہ علی غیرِہ الّا ھذا الیومَ یومَ عاشوراءَ وھذا الشھرَ یعنی شھرَ رَمَضَان (بخاری شریف1/268، مسلم شریف 1/360، 361)
میں نے نبی کریم ﷺ کو کسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔
مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشورہ کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ مدینہ میں تشریف لائے۔ (دوسرے سال) آپ ﷺ نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان سے اس کا سبب معلوم کیا، تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی تھی، اس لیے موسیٰؑ نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر موسیٰؑ کی (خوشی میں شریک ہونے میں) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہؓ کو بھی اس کا حکم دیا۔ (صحیح البخاري: رقم الحدیث: 2004/صحیح مسلم: رقم الحدیث: 2526)
حضرت آدمؑ کی پیدائش اس دن ہوئی، حضرت نوحؑ کی کشتی جبلِ جودی پر اس دن ہی آٹھہری، حضرت یونسؑ اسی دن مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے، حضرت ابراہیمؑ کو آگ سے خلاصی ملی وہ یہی دن تھا، حضرت یعقوبؑ کی ملاقات حضرت یوسفؑ سے اسی دن ہوئی اور حضرت یوسفؑ تختِ خلافت پر دس محرم ہی کو متمکن ہوئے، حضرت موسیٰؑ نے اسی دن اپنی قوم سمیت فرعون سے نجات پائی اور اسی دن حضرت عیسیٰؑ پیدا ہوئے، اسی دن حضرت سلیمانؑ کو آزمائش کے بعد بادشاہت ملی اور حضرت ایوبؑ کو بھی بعد امتحان شفا اسی روز ملی، یہی وہ دن ہے جس میں حضرت ادریسؑ اور حضرت عیسیٰؑ کو آسمان پر اُٹھا لیا گیا اور یہی وہ دن ہے جس میں جگر گوشۂ رسول حضرت حسینؓ نے باطل سے ٹکرا کر جامِ شہادت گلے لگایا، اسی دن اس کائنات کی بساط لپیٹ کر قیامت برپا کر دی جائے گی۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، بحوالہ خصوصیات ماہ محرم الحرام ویوم عاشوراء، و معارف القرآن، ملخصاً)
حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ "تم نویں اَور دسویں تاریخ کا روزہ رکھو اَور یہود کی مخالفت کرو"۔ (سنن الترمذي، 3/ 120)
فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ جو شخص محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھے، تو مستحب یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور بھی رکھے، چاہے نو محرم کا روزہ ہو یا گیارہ کا۔ (بدائع الصنائع: 79/2، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت/ رد المحتار: 375/2، ط: دار الفکر، بیروت)
مسلم شریف میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے عاشورہ کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی دن کو افضل جان کر روزہ رکھا ہو، سوائے عاشورہ کے اور نہ ہی کسی مہینے کا سوائے رمضان کے۔ یعنی دنوں میں عاشورہ اور مہینوں میں رمضان کو افضل مانتے تھے۔ (لطائف المعارف لابن رجب: ط: دار ابن کثیر/ فيض القدير للمناوي: 215/4، ط: المكتبة التجارية الكبرى، مصر)
محدث العصر علامہ محمد يوسف بنورىؒ نے لکھتے ہیں کہ عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں:
(1) نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے۔
(2) نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے۔
(3) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔
ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے۔ (معارف السنن لمحدث العصر يوسف البنوري: 437/5، ط: مجلس الدعوة و التحقيق الإسلامي)
حضرت سید علامہ انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں کہ تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاء نے کراہت سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزہ کو آپ نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔ (معارف السنن 5/434)
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر کھانے پینے کے سلسلے میں فراخی اور وسعت کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائیں گے۔ "(شعب الإيمان: 333/5، ط: مكتبة الرشد، ریاض)
عاشورہ کے دن وسعت والی راویت پانچ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم (حضرت جابرؓ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ، حضرت ابو سعید خدری ؓ، حضرت ابو ہریرہ ؓ) سے مرفوعا اور حضرت عمر سے موقوفا اور ایک تابعی کی روایت سے مرسلا منقول ہے اور یہ روایات شعب الایمان للبیھقی، (شعب الایمان للبیھقي: 331/5 إلى 334، ط: مکتبة الرشد) اور الاستذکار لابن عبد البر(الاستذكار لابن عبد البر: 331/3، ط: دار الكتب العلمية، بيروت) اور التوسعة على العيال لأبي زرعة (التوسعة على العيال لأبي زرعة، لأبي الفضل زين الدين العراقي: ص: 16، ط: مخطوط نُشر في برنامج جوامع الكلم المجاني التابع لموقع الشبكة الإسلامية) میں وارد ہیں۔
بعض علمائے حدیث نے اس حدیث کی تمام اسانید و طرق پر جرح کرتے ہوئے اسے باطل یا موضوع (من گھڑت) کہا ہے، لیکن جمہور محدثین کرام نے اس کو معتبر مانا ہے اور اسے قابل عمل قرار دیا ہے۔
چنانچہ امام بیہقیؒ شعب الایمان میں تمام احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: یہ تمام روایات اگرچہ ضعیف ہیں، لیکن چوں کہ ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں، اس لیے مجموعی اعتبار سے ان میں قوت آجاتی ہے۔ (شعب الایمان للبیھقي: 333/5، ط: مکتبة الرشد)
علامہ ابوالفضل عراقیؒ، علامہ سخاویؒ، علامہ سیوطیؒ، علامہ ابن العراق کنانیؒ، علامہ طاہر پٹنیؒ، ملا علی قاریؒ، امام عجلونیؒ اور علامہ عبد الحی لکھنویؒ نے اس حدیث کو معتبر اور قابل عمل قرار دیا ہے۔ (المقاصد الحسنة للسخاوي: 675/1، ط: دار الكتاب العربي/ جامع الأحاديث للسيوطي: 494/61/ الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة لابن عراق الكناني: 157/2، ط: دار الكتب العلمية/تذكرة الموضوعات لطاهر الفَتَّنِي: ص: 117، ط: إدارة الطباعة المنيرية/ الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبریٰ: ص: 361، ط: دار الأمانة/ كشف الخفاء ومزيل الإلباس للعجلوني: 341/2، ط: المكتبة العصرية/الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة لعبد الحي اللكنوي: ص: 100، ط: مكتبة الشرق الجديد)
محدثین کرام کے علاوہ چاروں فقہائے کرام کے مسلک کی کتب سے بھی عاشورہ کے دن اہل و عیال پر وسعت کا ثبوت ملتا ہے۔ (رد المحتار: 430/6، ط: دار الفكر، بيروت)
حضرت جابرؓ اور امام یحیی بن سعید اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "ہم نے اس حدیث کا عملی تجربہ کیا تو ایسے ہی پایا۔ (الاستذكار لابن عبد البر: 331/3، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: "ہم نے پچاس، ساٹھ سال اس حدیث کا عملی تجربہ کیا، تو اسے صحیح پایا۔ (فيض القدير المناوي: 235/2، ط: المكتبة التجارية الكبریٰ)
ابراہیم بن منتشر کہتے ہیں کہ ہم نے ساٹھ سال اس حدیث کا عملی تجربہ کیا، تو اسے صحیح پایا۔ (التوسعة على العيال لأبي زرعة، لأبي الفضل زين الدين العراقي: ص: 2، ط: مخطوط نُشر في برنامج جوامع الكلم المجاني التابع لموقع الشبكة الإسلامية)
بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ماہِ محرم یا دس محرم کو فضیلت حضرت حسینؓ اور شہدائے کربلا کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے، یہ بات کئی وجوہات کی بناء پر سراسر باطل اور غلط ہے۔
محرم کا مہینہ ان چار حرمت والے مہینوں میں سے ہے، جن کو اللہ تعالی نے آسمان و زمین کی پیدائشں کے وقت ہی سے فضیلت بخشی، جیسا کہ سورة توبہ کی آیت میں ذکر ہے اور اسی طرح تفصیل سے احادیث مبارکہ ذکر ہوچکی کہ یہود و نصاریٰ اور قریش مکہ بھی اس دن کو عظمت اور احترام والا سمجھتے تھے اور خود جناب رسول اللہ ﷺ نے اس دن کی فضیلت بھی بیان فرمائی اور اس دن روزہ رکھنے کو اجر کا باعث قرار دیا، جبکہ حضرت حسینؓ کی شہادت کا سانحہ بہت بعد میں سن 61 ہجری میں پیش آیا، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ محرم اور عاشورہ کو فضیلت شہادت حسینؓ کی وجہ سے ہو، البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے مقبول بندے حضرت حسینؓ کی شہادت کے لیے اس محترم و معظم دن کا انتخاب فرمایا، لہذا ماہِ محرم یا عاشورہ کو حضرت حسینؓ کی شہادت کی وجہ سے فضیلت حاصل نہیں ہوئی، بلکہ خود حضرت حسینؓ کو اس دن شہید ہونے کی وجہ سے اور زیادہ فضیلت حاصل ہوئی۔ (الغنية للشيخ عبدالقادر الجيلاني: 93/2، ط: دار الكتب العلمية)
عرف عام میں بہت سی ایسی چیزیں موجود ہیں جن کی محرم الحرام سے نسبت کی جاتی ہے، اس میں ایک محرم الحرام میں شادی نہ کرنے کا رواج بھی ہے، آئیں فقہاء سے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ شریعت مطہرہ کیا کہتی ہے؟
"ماہ مبارک محرم میں شادی وغیرہ کرنا نامبارک اور ناجائز سمجھنا سخت گناہ اور اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہے۔ اسلام نے جن چیزوں کو حلال اور جائز قرار دیا ہو، اعتقاداً یا عملاً ان کو ناجائز اور حرام سمجھنے میں ایمان کا خطرہ ہے"۔ (فتاويٰ رحیمیة: 115/2، ط: دار الاشاعت)
"محرم الحرام بھی سال کے دوسرے مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے، جس طرح سال کے دوسرے مہینوں میں شادی بیاہ کرنا جائز ہے، اسی طرح محرم میں بھی جائز ہے، کسی بھی دلیلِ شرعی سے حرمت و ممانعت ثابت نہیں۔ روافض اور شیعوں نے اس قبیح اور بے بنیاد مسئلہ کو لوگوں میں رائج کر رکھا ہے، مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ وہ اس بدعت کو ترک کردیں"۔ (فتاويٰ حقانیة: 100/2، دارالعلوم حقانیة اکورھ ختک)
حضرت مولانا یوسف لدھیانویؒ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ: "شریعت میں کوئی مہینہ ایسا نہیں جس میں شادی سے منع کیا گیا ہو"۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل: 529/2، ط: لدھیانوي)
احادیث مباركہ کی روشنی میں "ماتم و نوحہ" کا حکم جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
1۔ حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: " دو چیزیں ایسی ہیں جو کفر ہیں: ایک تو نسب میں طعنہ دینا اور دوسرا میت پر نوحہ کرنا"۔ (صحیح مسلم: رقم الحدیث: 227)
2۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "وہ ہم میں سے نہیں جو (مصیبت کے وقت) چہرے کو پیٹے، گریبان کو پھاڑےاور جاہلیت جیسا واویلا اور نوحہ کرے"۔ (صحیح البخاري: رقم الحدیث: 1294)
احادیث مبارکہ میں واضح طور پر مصیبت کے وقت نوحہ کرنے، چیخنے چلانے، واویلا کرنے، جاہلیت جیسی باتیں کرنے، گریبان اور کپڑے پھاڑنے، چہرہ پیٹنے، چہرہ نوچنے اور ماتم کرنے جیسے، تمام غیر شرعی کاموں کی شدید مذمت اور ان سے متعلق سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، اس لیے ایک مسلمان کو ان غیر شرعی کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
عشرہ محرم میں مسلمان بھی ماتم کی مجلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور تعزیہ کے جلوس کو دیکھنے کے لیے بڑے شوق سے جاتے ہیں یا ٹی وی، موبائل فون وغیرہ پر تعزیے اور ماتمی جلوس کا نظارہ کرتے ہیں، حالانکہ اس میں کئی گناہ ہیں:
ایک گناہ تو اس میں یہ ہے کہ ان مجالس اور جلوس میں شرکت کرنے سے دشمنانِ صحابہ اور دشمنان قرآن کے ساتھ مشابہت ہے۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی قوم سے مشابہت کی، وہ انہی میں شمار ہوگا۔
دوسرا گناہ یہ ہے کہ دشمنان صحابہ کی تعداد بڑھتی ہے، جبکہ دشمنوں کی تعداد بڑھانا حرام ہے، جناب نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: جس نے کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کیا، وہ بھی انہی میں شمار ہوگا۔ (کنز العمال، کتاب الصحبة من قسم الأقوال، 9: 22، رقم: 24735، ط موٴسسة الرسالة، بیروت)
تیسرا گناہ یہ ہے کہ جس طرح عبادت کا کرنا اور دیکھنا اور اس سے خوش ہونا باعثِ اجر وثواب ہے، اسی طرح گناہوں کے کاموں کو بخوشی دیکھنا بھی گناہ ہے، ظاہر ہے کہ ماتم کی مجلس میں جانا اور تعزیہ نکالنا، یہ سب گناہ کے کام ہیں۔
چوتھا گناہ یہ ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے، وہاں اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے اور ایسی غضب والی جگہ پر جانا بھی گناہ سے خالی نہیں، غرض کہ ان مجلسوں اور جلوسوں سے بھی احتراز کرنا لازم ہے۔ (احسن الفتاویٰ، ج: 1، ص: 394 ط: ایچ ایم سعید)
سیاہ لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے، خود جناب رسول اللہ ﷺ نے سیاہ عمامہ، سیاہ چادر، سیاہ جبہ زیب تن فرمایا ہے۔ (سنن أبي داود: رقم الحدیث: 4077/سنن أبي داود: رقم الحدیث: 4074/المستدرك على الصحيحين للحاكم: 209/4، ط: دار الكتب العلمية) اس لیے سیاہ لباس پہننا منع نہیں، لیکن چونکہ محرم کے مہینے میں سیاہ رنگ کا لباس پہننا روافض کا شعار بن چکا ہے اور وہ لوگ سیاہ لباس اظہار سوگ کی علامت کے طور پر پہنتے ہیں، (مرقاة المفاتیح لملا علي القاري: 456/3، ط: دار الكتب العلمية) اس وجہ سے ان دنوں میں اس لباس کو ترک کرنا چاہیے، تاکہ روافض کے ساتھ مشابہت نہ ہو، لیکن جہاں روافض کے ساتھ مشابہت کا اندیشہ نہ ہو، تو ایسا لباس پہننا جائز ہے۔ (عون المعبود شرح سنن أبي داود: 86/11، ط: دار الكتب العلمية)
بعض لوگ محرم کی دسویں تاریخ کو کھچڑا، حلیم وغیرہ پکاتے ہیں۔
علامہ ابن کثیرؒ نے اس بارے میں "البداية والنهاية" میں لکھا ہے کہ: "حضرت حسینؓ کی شہادت کی خوشی میں خوارج دسویں محرم کو مختلف اناج ملاکر پکاتے تھے"۔ (البدایة والنہایة: 202/8- 599، ط: بیروت)
اس بات سے معلوم ہوا کہ اس دن کھچڑا پکانا رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت سے دشمنی رکھنے والوں کی ایجاد کردہ رسم ہے، اہل بیت سے الفت و محبت رکھنے والوں کو اس رسم سے بچنا نہایت ضروری ہے۔
بعض لوگ ماہ محرم اور بالخصوص دس محرم کو پانی اور شربت کی سبیل لگاتے ہیں اور راستوں پر بیٹھ کر گزرنے والے کو وہ پانی یا شربت پلاتے ہیں، تو اگرچہ پانی پلانا باعثِ ثواب اور نیکی کا کام ہے، لیکن اس ثواب کے کام کو صرف محرم کے مہینے کے ساتھ خاص کرنا اور اس مہینے کے اندر سبیل لگانے کو زیادہ اجر و ثواب کا موجب سمجھنا، بدعت اور ناجائز ہے۔ (فتاوی عثمانی، ج: 1، ص: 122 ط: معارف القرآن)
ماہ محرم خصوصاً نویں، دسویں، گیارہویں تاریخ میں بعض لوگ کھانا پکاکر حضرت حسینؓ کی روح کو ایصالِ ثواب کرتے ہیں، یہ طریقہ بھی بالکل غلط ہے اور اس مروجہ طریقے میں کئی قباحتیں ہیں:
1۔ جن ارواح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے، اگر ان کو نفع و نقصان کا مالک سمجھا گیا اور ان کے نام سے وہ کھانا پکایا گیا تو یہ شرک ہے اور ایسا کھانا "مَا اُھلَّ بِہ لِغَیُرِ اللہِ" میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔
2۔ عموماً یہ خیال کیاجاتا ہے کہ جو چیز صدقہ میں دی جاتی ہے، میت کو بعینہ وہی ملتی ہے، حالانکہ یہ خیال بالکل باطل ہے، میت کو وہ چیز نہیں پہنچتی، بلکہ اس کا ثواب پہنچتا ہے۔
3۔ ایصالِ ثواب میں اپنی طرف سے قیود لگائی گئی ہیں، مثلاََ صدقہ کی متعین صورت یعنی کھانا، مہینہ متعین، دن متعین، حالانکہ شریعت نے ان چیزوں کی تعیین نہیں فرمائی ہے، جو چیز چاہیں جب چاہیں صدقہ کرسکتے ہیں، شریعت کی دی ہوئی آزادی پر اپنی طرف سے پابندیاں لگانا گناہ اور بدعت، بلکہ شریعت کا مقابلہ ہے۔ (احسن الفتاوی، ج: 2، ص: 392، ط: ایچ، ایم، سعید)

